بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جعلی ریویو لکھ کر اس کا معاوضہ لینے کا حکم


سوال

میں ایک فری لانسر ہوں اور تین سال سے فری لانسنگ کر رہی ہوں،   میرا ایک کلائنٹ ہے جو امریکہ میں ایک نئے  بزنس کا مالک ہے، چوں کہ اس کا کاروبار نیا ہے اس لیے اپنی پراڈکٹ کے بارے میں کچھ جعلی  تبصرے(Review) درکار ہیں،  واضح رہے کہ میں صرف تبصرہ(Review) لکھوں گی اور اس کے بدلے میں وہ مجھے اس کا معاوضہ دے گا، کیا یہ درست ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ   پراڈکٹس کے بارے میں جعلی ریویو لکھنا یا لکھوانا  جھوٹ اور فریب  ہے،  حدیث شریف کے مطابق سچائی  کاروبار میں  برکت کا باعث بنتی ہے اور جھوٹ کی وجہ سے کاروبار کی برکت ختم ہوجاتی ہے، اور جو دھوکا دیتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کا اس کے بارے میں ارشاد مبارک ہے کہ "جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے"، نیز  جھوٹ کے ذریعے جتنی کمائی ہو وہ بھی ناجائز اور حرام  ہے،  لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے لیے اپنے کلائنٹ کے پراڈکٹس کے بارے میں  جعلی ریویو لکھنا یہ جھوٹ اور دھوکہ کے زمرے میں آتا ہے  ، اور اس کام کے  بدلے میں  سائلہ کے لیے کسی قسم کا معاوضہ لینا حلال نہیں ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم، ولا يزكيهم، ولهم عذاب أليم. قال: فقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرار. قال أبو ذر: خابوا وخسروا، من هم يا رسول الله؟ قال: ‌المسبل، والمنان، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب »."

(كتاب الإيمان،‌‌باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية وتنفيق السلعة بالحلف، ج:1، ص:71، ط:دار المنهاج)

ترجمہ:ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں گناہوں سے پاک وصاف کرے گا (معاف کرے گا) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار یہ فرمایا: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم یہ لوگ تو سخت نقصان اور خسارے میں ہوں گے یہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا اور دے کر احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں