بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جائزامورمیں والد صاحب کی نافرمانی کاحکم


سوال

ہم چاربھائی ہیں،اورمیں سب سےچھوٹاہوں،بڑےتینوں بھائی الگ کام کرتےہیں،اورگھرمیں پیسےبھی دیتےہیں،میں چونکہ والدصاحب کےساتھ ہوں اس لیےمیں گھرمیں پیسےنہیں دیتااورمجھےوالدصاحب روزانہ  کے500روپےدیتےہیں،میں شادی شدہ ہوں میرے گھرمیں پیسےنہ دینےپر مجھےباتیں بھی سنائی جاتی ہیں،میرےبھائیوں کےکمروں میں اےسی چلتی ہے،اورمیں چونکہ اےسی کابل برداشت نہیں کرسکتا اس لیےمیں اےسی نہیں چلاتااورمیری بیوی نےاپنےسونےکی زکوٰۃ میرےذمہ لگائی ہے،کیونکہ میرےبھائی بھی اپنی بیویوں کےسونےکی زکوٰۃ اداکرتےہیں،(6)مہینےگزرگئےمیں زکوٰۃ نہیں دےسکا۔

اب سوال یہ ہےکہ کیامیں الگ کام کرسکتاہوں،جب کہ میرےوالدکی عمر (66)سال ہے،اوردوکان میں ملازم ایک چھوٹاسابچہ ہےاگرمیں دوکان سےنکلتاہوں،تووالدصاحب کوپریشانی ہوگی،اورمیری بیوی مجھےالگ کام کرنےکابہت عرصےسےبول رہی ہے،اگرمیں الگ کام کروں گناہ گارتونہیں ہوں گا،اوروالدکی بددعاکامستحق تونہیں ہوں گا،ازراہ کرم اس معاملےمیں شرعی راہ نمائی فرماکرممنون فرمائیں۔

جواب

واضح رہےکہ ہرعاقل بالغ مسلمان بیٹے پراپنےوالدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں، وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنابسااوقات اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگر سائل کااپنےطورپرالگ کاروبارکرکےمذکورہ مسائل (کہ گھروالوں کوپیسےنہ دینا،اوربھائیوں کاسائل کوطعنےدینا،اوربیوی کےسونےکی زکوٰۃ ادانہ کرنےجیسےمسائل)کاحل نکال سکتاہے،توپھرسائل اپنےوالدمحترم سےمشورہ کرکےالگ طورپرکاروبارکرنےکی اِجازت لیکردیگر بھائیوں کی طرح اپناانتظام خود کرے،اوراگروالد اس کےلیےرضامند نہیں ہوتےتووالد کوکہےکہ مسائل کےحل کےلیےماہانہ بنیاد پر مناسب تنخواہ رکھےجس میں اپنی مذکورہ ضرورتیں پوری کرنےمیں دشواری نہ ہو،اوراگرپھربھی معاش کمانےمیں مشکلات درپیش ہورہےہیں توعنداللہ سائل کامؤاخذہ نہیں ہوگا۔

قرآن مجیدمیں ہے:

"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا."

 

(سورة الإسرة، آية:23)

ترجمہ:اورتیرےرب نےحکم کردیاہےکہ بجزاس کےکسی کی عبادت مت کرو،اورتم ماں باپ کےساتھ حسن سلوک کیاکرو،اگرتیرےپاس اُن میں سےایک یادونوں کےدونوں بوڑھاپےکوپہنچ جاویں سواُن کوبھی ہوں بھی مت کہنااورنہ اُن کوجھڑکنا،اوراُن سےخوب ادب سےبات کرنا۔(بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "‌رغم  ‌أنفه، ‌رغم ‌أنفه، ‌رغم ‌أنفه". قالوا: يا رسول الله! من؟ قال: "من أدرك والديه عنده الكبر، أو أحدهما، فدخل النار."

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل ‌الذنوب يغفر الله منها ما شاء إلا عقوق الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات."

(باب البر والصلة،الفصل الثالث،3/1383،ط:المكتب الإسلامي)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144410100521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں