بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جا میں تجھے طلاق دے رہاہوں ایک دو تین کہنے کتنی طلاق واقع ہو ہے؟


سوال

میری شادی کو تین سال ہوچکے ہیں، میرا اپنی بیوی کے ساتھ کچھ گھریلو مسائل چل رہے تھے، عیدکے دوسرے دن میرے ساس نے مجھ سے کہا کہ "میں دیکھتی ہوں کہ تم  میری بیٹی کو کیسے طلاق نہیں دوگے؟"، جس پر میں غصے میں آکر اپنی بیوی سے یہ کہا کہ"جا میں تجھے طلاق دے رہاہوں ایک، دو، تین، تم میری ماں بہن ہو"، میں یہ  الفاظ غصے میں کہے، طلاق دینے کی نیت نہیں تھی،مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد میں  ساس کے گھر سے نکلا تو میں نےسر پکڑ لیا کہ یہ میں نے کیا کہہ دیاہے؟ اور میں نے اپنا سردیوار پر مارنا شروع کیا، اس وقت سے میں پچھتا رہاہوں، اب سوال یہ ہے کہ کیا طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اور کیا رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں؟ جب کہ میری بیوی میرے ساتھ دوبارہ رہنے پر راضی ہے۔

وضاحت: سائل نے ایک ہی سانس میں مذکورہ جملہ (جا میں تجھے طلاق دے رہاہوں ایک، دو، تین، تم میری ماں بہن ہو)کہاہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب اپنی بیوی سےایک ہی سانس میں  یہ کہا کہ "جا میں تجھے طلاق دے رہاہوں ایک، دو، تین، تم میری ماں بہن ہو"تو اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، سائل کی بیوی سائل    کے لیے حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکاہے،اب رجوع جائز نہیں ہے اور نہ دوبارہ نکاح ہوسکتاہے،بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل  نہ ہو، اگر حمل  ہو توبچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،البتہ اگر سائل کی بیوی عدت کے بعد کسی اور شخص کے ساتھ نکاح کرلے، اور اس کے ساتھ صحبت یعنی جسمانی تعلق ہوجائے، پھر وہ شوہر اسے طلاق دے دے یا بیوی طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے، اس کی عدت گزار کر سائل کے ساتھ دوبارہ نکاح ہوسکتاہے، اس کے بغیر دوبارہ ایک ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

تنویر الابصار مع الدر امختار میں ہے:

"(و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) نفسه عند ذكر العدد، و عند عدمه الوقوع بالصيغة".

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متي قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه قال لغير المدخول بها: أنت طالق ثلاثاً طلقت ثلاثاً، و لو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد ... الخ

(کتاب الطلاق، مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به، ج:3،ص:287، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"مطلب قال أنت طالق وسكت ثم قال ثلاثا تقع واحدة"

"وفي الخانية قال لزوجته أنت طالق وسكت ثم قال ثلاثا، إن كان سكوته لانقطاع النفس تطلق ثلاثا وإلا تقع واحدة. وفي أيمان البزازية: أخذه الوالي وقال بالله فقال مثله، ثم قال لتأتين يوم الجمعة فقال الرجل مثله فلم يأت لم يحنث لأنه بالحكاية والسكوت صار فاصلا بين اسم الله تعالى وحلفه، وكذا فيما لو كان الحلف بالطلاق. اهـ. (قوله إلا لتنفس) أي وإن كان له منه بد، بخلاف ما لو سكت قدر النفس ثم استثنى لا يصح الاستثناء للفصل، كذا في الفتح. فعلم أن السكوت قدر النفس بلا تنفس كثير وأن السكوت للتنفس ولو بلا ضرورة عفو".

(کتاب الطلاق، باب التعلیق،ج:3،ص:367،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں