بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جا اپنے میکے چلی جا میں نے تیرا کام تمام کردیا کہنے کا حکم


سوال

شوہر نے غصّے کی حالت میں بیوی سے کہا کہ "جا اپنے میکے چلی جا، میں نے تیرا کام تمام کردیا" اس سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ بالخصوص یہ بتائیں کہ "میں نے تیرا کام تمام کردیا" یہ کنائی الفاظ کی اقسام ثلاثہ میں سے کس قسم کے تحت داخل ہیں؟ آیا "ما يصلح جوابا وشتما"کے قبیل سے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شوہر کا غصےّ کے حالت میں  یہ کہنا کہ "جا اپنے میکے چلی جا، میں نے تیرا کام تمام کردیا" یہ الفاظ کنایہ میں سے ہے، اور ان الفاظ سے  ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے،اگر شوہر نے اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی ہو تو اس(شوہر )کے پاس آئندہ کےلیے دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا،اب اس  صورت میں دونوں کو دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے دورانِ عدت یا عدت گزر جانے کے بعد، دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا پڑے گا،نیز یہ کنائی الفاظ کی اقسام ثلاثہ میں سے  "ما يصلح جوابا ورداً " کے قبیل سے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ف) الكنايات (لا تطلق بها)‌قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب...(قوله ‌قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في ‌القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره."

(‌‌‌‌كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:297، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم الكنايات ثلاثة أقسام: ( ما يصلح جواباً لا غير ): أمرك بيدك ، اختاري ، اعتدي، ( وما يصلح جواباً ورداً لا غير ): اخرجي، اذهبي، اعزبي، قومي، تقنعي، استتري، تخمري، ( وما يصلح جواباً وشتماً ): خلية، برية، بتة، بتلة، بائن، حرام، والأحوال ثلاثة: ( حالة ) الرضا، ( وحالة ) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها، ( وحالة ) الغضب، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية، والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جواباً ورداً؛ فإنه لا يجعل طلاقاً، كذا في الكافي. وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك؛ لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم، كقوله: اعتدي، واختاري، وأمرك بيدك؛ فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:374، ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً:

"وفي الفتاوى ‌لم ‌يبق ‌بيني وبينك عمل ونوى يقع."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:386، ط: رشیدیة)

ہدایہ میں ہے:

"وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائھا؛ لأن حل المحلیة باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فینعدم قبله."

(‌‌‌‌كتاب الطلاق، باب الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة، ج:2، ص:257، ط: دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں