ایزی پیسہ اور جیز کیش کی رقم بھیجنے یا وصول کرنے پر کیا ہم منافع رقم لے سکتے ہیں؟
ہماری معلومات کے مطابق ایزی پیسہ کمپنی کی جانب سے اپنے نمائندوں کو رقوم کی منتقلی پرجو کمیشن دیا جاتا تھا، کمپنی نے اس میں کمی کردی ہے ، البتہ کمیشن بالکلیہ ختم نہیں کیا ہے ، نیز کمپنی کی جانب سے کمیشن کے جو نئے ریٹ دیئے گئے ہیں، اس پر صراحت کے ساتھ درج ذیل تین جملے درج ہیں :
1۔شرائط و ضوابط لاگو ہیں۔
2۔رقم جمع کروانے پر صارفین کے لیے کوئی فیس نہیں ہے۔
3۔کسٹمر فیس کی کٹوتی ، سسٹم کی بتائی گئی رقم کے حساب سے کریں۔
مذکورہ بالا جملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ ہولڈر رقوم کی منتقلی میں کمپنی اور صارف کے درمیان کمپنی کا نمائندہ ہے، کمپنی کا نمائندہ اور وکیل کے علاوہ اکا ؤنٹ ہولڈر کی کوئی حیثیت نہیں ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں ایزی پیسہ اکا ؤنٹ ہولڈر کمپنی کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوگا، اور کمپنی کی جانب سے جاری کردہ احکامات کی خلاف ورزی کر کے صارفین سے زائد رقم وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔
البحر الرائق میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
[كتاب الحدود، ج:5، ص:44، ط:دار الكتاب الإسلامي]
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم."
(مطلب في أجرة الدلال، ج:6، ص:63، ط:سعید)
جب کہ اس مسئلہ کی نظیر امداد الفتاوی میں ہے:
"سوال: لیسنس دار جو اسٹامپ خزانہ سے بیچنے کے لیے لاتے ہیں، تو ان کو ایک روپے پر تین پیسے کمیشن کے طور پر دیے جاتے ہیں، یعنی ایک روپے کا اسٹامپ سواپندرہ آنہ پر ملتا ہے اور لیسنس داروں کو یہ ہدایت قانوناً ہوتی ہے کہ وہ ایک روپیہ سے زائد میں اس اسٹامپ کو نہ بیچیں، اب قابلِ دریافت یہ بات ہے کہ اگر یہ شخص ایک روپے والے اسٹامپ کو مثلاً ایک روپے یا سترہ آنے میں فروخت کرے، تو شرعاً جائز ہوگا یا ناجائز؟
جواب: حقیقت میں یہ بیع نہیں ہے، بلکہ معاملات کے طے کرنے کے لیے جو عملہ درکار ہے، اس عملہ کے مصارف اہل معاملات سے بایں صورت لیے جاتے ہیں کہ انہی کے نفع کے لیے اس عملہ کی ضرورت پڑی، اس لیے اس کے مصارف کا ذمہ دار انہی کو بنانا چاہیے اور لیسنس دار بھی مصارف پیشگی داخل کر کے اہلِ معاملہ سے وصول کرنے کی اجازت حاصل کرلیتا ہے اور اس تعجیل ایفاء کے صلہ میں اس کو کمیشن ملتا ہے، پس یہ شخص عدالت کا وکیل ہے، مبیع کا ثمن لینے والا نہیں، اس لیے مؤکل کے خلاف کر کے زائد وصول کرنا حرام ہوگا، فقط۔"
(امداد الفتاوی، ج:3، ص:113، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102239
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن