بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کو چھ سال ہونے کے باوجود ازدواجی حقوق کی ادائیگی سے قاصر شخص کی بیوی کے لیے علیحدگی کا حکم


سوال

ایک لڑکی کی شادی کو  چھ سال ہوئے ہیں اس کے شوہر شدید مردانہ کم زوری کی وجہ سے ازدواجی تعلقات ادا کرنے سے قاصر ہیں،  بہت علاج کروانے کے باوجود صحت کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ باقی وہ لڑکی کا نان نفقہ سب کچھ ٹھیک سے پورا کر رہے ہیں اور خیال بھی رکھتے ہیں، مگر لڑکی کو اولاد کی خواہش ہے اور شوہر کی صحت سے اولاد کی کوئی امید نہیں۔  لڑکی کا دل اس رشتے پر بالکل آمادہ نہیں اور اس کا گناہ کی طرف مائل ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔  وہ اپنے گھر والوں کو کہتی ہے تو وہ اسے صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

براہِ  کرم شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں بتا دیں کہ ایسی صورتِ حال میں لڑکی کیا کرے؟ اگر لڑکی علیحدگی کی خواہش کرے یا اس کے لیے کوئی حجت کرے مثلاً وظائف وغیرہ پڑھے یا روحانی عمل کروائے جس سے شوہر خود طلاق دے دے تو کیا گناہ گار ہوگی؟ یا کوئی اور سبیل شریعت کی رو سے جائز ہو تو وہ بھی بتادیں!

جواب

اگر سوال میں مذکورہ لڑکی کا شوہر نامرد ہے اور  ازدواجی حقوق ادا کرنے سے بالکل قاصر ہے تو ایسے شخص کو فقہی اصطلاح میں ’’عنین‘‘ کہا جاتاہے، عنین کی بیوی کو عدالت کے ذریعہ اپنا نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے بشرطیکہ نکاح سے پہلے اسے اپنے شوہر کے عنین ہونے کا علم نہ ہو، اور  نکاح کے بعد شوہر  کے بارے میں معلوم ہونے پر اس نے اس شوہر کے ساتھ  رہنے پر رضامندی کا اظہار بھی نہ کیا ہو۔ ’’عنین‘‘ سے آزادی حاصل کرنے کا تفصیلی طریقہ یہ ہے:

 ’’عنین‘‘ (نامرد) شخص کی بیوی کوچاہیے کہ وہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعوی دائر کرے کہ اس کا شوہر ہم بستری کے قابل نہیں ہے اوراب تک ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکاہے،  لڑکی کے دعوے  کے بعد جج اس کے شوہر کوطلب کرکے تحقیق کرے گا، اگرثابت ہوجائے کہ اب تک ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکا ہے تو جج مذکورہ لڑکی کے شوہرکو ایک سال کی مہلت دے گا  کہ مزید علاج وغیرہ کرکے بیوی کا حق ادا کرے،  ایک سال بعد بھی اگروہ ہم بستری پرقادر نہ ہو تو جج مذکورہ لڑکی سے ایک مرتبہ پھرپوچھے گا کہ وہ اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یاجدائی چاہتی ہے؟ اگرلڑکی جدائی کا مطالبہ کرے توجج دونوں کے درمیان تفریق کردے گا،  اس کے بعد لڑکی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

بہرحال مذکورہ لڑکی کے لیے نامرد شوہر سے جان خلاصی کا شرعی اور قانونی طریقہ موجود ہے، اسے بروئے کار لاکر وہ جدائی اختیار کرتی ہے تو گناہ گار نہیں ہوگی، نیز اس کے لیے عملیات کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے، دعا تو ہر مسلمان کو ہر حال میں ہی کرنی چاہیے، لہٰذا بطورِ دعا کوئی ورد پڑھتی ہے تو اس میں حرج نہیں ہے۔

"عن عبد اللّٰه رضي اللّٰه عنه قال: یؤجل العنین سنةً، فإن وصل إلیها، وإلا فرّق بینهما ولها الصداق". (المعجم الکبیر للطبراني ۹؍۳۴۳ رقم: ۹۷۰۶)
"وإذا وجدت المرأة زوجها عنینًا فلها الخیار، إن شاء ت أقامت معه کذٰلك، وإن شاء ت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة". ( المحیط البرهاني ، کتاب النکاح / الفصل الثالث والعشرون : العنین ۴ ؍ ۲۳۸ المجلس العلمي)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 494):
"(هو) لغةً: من لايقدر على الجماع، فعيل بمعنى مفعول، جمعه عنن. وشرعًا: (من لايقدر على جماع فرج زوجته) يعني لمانع منه ككبر سن، أو سحر، إذ الرتقاء لا خيار لها للمانع منها خانية. (إذا وجدت) المرأة (زوجها مجبوبا) ، أو مقطوع الذكر فقط أو صغيره جدا كالزر، ولو قصيرا لا يمكنه إدخاله داخل الفرج فليس لها الفرقة بحر، وفيه نظر.وفيه: المجبوب كالعنين إلا في مسألتين؛ التأجيل، ومجيء الولد (فرق) الحاكم بطلبها لو حرة بالغة غير رتقاء وقرناء وغير عالمة بحاله قبل النكاح وغير راضية به بعده (بينهما في الحال) ولو المجبوب صغيرًا لعدم فائدة التأجيل.

(قوله: وغير عالمة بحاله إلخ) أما لو كانت عالمة فلا خيار لها على المذهب كما يأتي، وكذا لو رضيت به بعد النكاح". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں