ایک دوکان دار شخص ہول سیلر کے پاس جاتا ہے جس سے وہ ریگولر کام کرتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کو اضافی لاکھ روپےرکھوادیتا ہوں، لیکن مجھے آپ ہر آڈر پر ڈسکاؤنٹ دے دیں ، مطلب ایک یونٹ پر سو روپے ڈسکاؤنٹ یا ہر بل پر پانچ فیصد ڈسکاؤنٹ دے دیں تو کیا ایک لاکھ روپے لے کر ہول سیلر کا اپنے گاہگ کو ذکر کردہ طریقے کے مطابق ڈسکاؤنٹ دینا جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ایک لاکھ روپے قرض ہے اور قرض کے بدلے میں مشروط یا معروف نفع وصول کرنا (جس کی ایک شکل قرض کی وجہ سے ملنے ولاا ڈسکاؤنٹ بھی ہے) سود ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے؛ لہذا مذکورہ طریقے سے حاصل ہونے والا ڈسکاؤنٹ ناجائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".
(کتاب البیوع، فصل في القرض، مطلب كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101080
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن