بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اضافی بل آنے کی صورت میں بجلی کی چوری جائز نہیں ہوجاتی ہے


سوال

 پاکستان میں ملکی قوانین اور شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی عام ہے،ہر محکمے میں کرپشن اور اقرباء پروری عام ہے،واپڈا میں بجلی چوری اور بل نادینا بہت زیادہ ہے، بجلی چوری اور برائے نام ریکوری کی وجہ سے جو لائن لاسز ہوتے ہیں ،واپڈا والے وہ لائن لاسز کم کرنے کے لئے چوری شدہ یونٹس باقاعدہ بل جمع کرانے اور بجلی چوری نہ کرنے والے ایمان دار صارفین کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جو کہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے،اور ہمارے علاقے میرپورخاص سندھ میں یہ مسائل حد سے زیادہ ہیں،  کیا مندرجہ بالا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی چوری کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے؛ کیوں کہ ایک فرد سے تو آدمی معاف بھی کراسکتا ہے، لیکن پوری قوم سے معاف کراناممکن نہیں۔اگر متعلقہ محکمہ اضافی بل بھیجے  تو یہ ان کی طرف سےظلم ہےجس کی جواب دہی ان  کے ذمہ ہے،تاہم اس کو جوازبناکربجلی چوری کرناجائزنہیں ہے،آپ اپنی شکایت  کے ازالے کے لیے متعلقہ ادارے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں ۔

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"‌والمظلوم ‌ليس ‌له ‌أن ‌يظلم غيره."

(كتاب الكفالة، ج:1، ص:310، ط:المطبعة الخيرية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال القهستاني: وهي نوعان؛ لأنه إما أن يكون ضررها بذي المال أو به وبعامة المسلمين، فالأول يسمى ‌بالسرقة ‌الصغرى والثاني بالكبرى، بين حكمها في الآخر؛ لأنها أقل وقوعا وقد اشتركا في التعريف وأكثر الشروط اهـ أي؛ لأن المعتبر في كل منهما أخذ المال خفية، لكن الخفية في الصغرى هي الخفية عن عين المالك أو من يقوم مقامه كالمودع والمستعير. وفي الكبرى عن عين الإمام الملتزم حفظ طرق المسلمين وبلادهم كما في الفتح."

(‌‌كتاب السرقة، ج:4، ص:82، ط:سعيد)

 فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"‌ولا ‌يجوز ‌حمل ‌تراب ربض المصر لأنه حصن فكان حق العامة فإن انهدم الربض ولا يحتاج إليه جاز كذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الكراهية، الباب الثلاثون في المتفرقات، ج:5، ص:373، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں