بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ivf طریقہ علاج کے ذریعے اولاد کے حصول کی کوشش کرنے کا حکم


سوال

میری شادی کو عرصہ بارہ  سال ہو گئے ہیں اور اولاد نہیں ہے۔ مختلف طریقوں سے علاج کروایا ہے لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ میری اور زوجہ کی تمام رپورٹس ٹھیک ہیں۔ کچھ روز پہلے آسٹریلین کونسیپٹ ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ہمیںIVFٹیسٹ کے کروانے کا کہا ہے۔ IVFطریقہ علاج میں بیوی کے انڈے کو نکال کر لیب میں مرد کی مادہ منی سے ملاپ کروا کر دوباره بیوی  کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے اور 9 ماہ کا عرصہ پورا کروایا جاتا ہے۔  کیا یہ طریقہ علاج جائز ہے تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر شوہر کا مادہ منویہ نکالنے اور بیوی کے رحم میں داخل کرنے کے عمل میں کسی اجنبی مرداور عورت کا دخل نہ ہو، یعنی مادہ منویہ بھی شوہر کا ہی ہو اور اسی کی بیوی کے رحم میں ڈالا جائے اور یہ کام  ڈاکٹر سے تربیت لے کر شوہر اور بیوی خودانجام دیں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر مادہ منویہ شوہر کے علاوہ کسی اور کا ہو، یا شوہر کے مادہ منویہ  کوغیرفطری طریقہ سے نکالنے یا عورت کے رحم میں داخل کرنے میں تیسرے مردیاعورت کا عمل دخل ہو اور اجنبی مردیاعورت کے سامنے ستر کھولنے  یا چھونے کی ضرورت پڑتی ہو تو اس طرح کرنے کی شرعاً اجازت نہیں،  کیوں کہ حصول اولاد کی یہ کوشش شرعی اعتبار سے ضرورت کے دائرہ میں نہیں آتی ہے کہ جس میں ناجائز امور کا ارتکاب ہو۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل فی النظر و المس، 6/ 371، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمه اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا………کذا فی الذخیرة."

(کتاب الکراھیة، الباب التاسع في اللبس ما يكره من ذلك وما لا يكره، 5/ 330، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا إلی الرکبة إلا عند الضرورة، بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر إلی الفرج عند الولادة، وکذا لا بأس أن تنظر إلیہ لمعرفة البکارة في امرأة العنین، والجاریة المشتراة علی شرط البکارة إذا اختصما، وکذا إذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر إلیہ فلا بأس أن تداویھا، إذا علمت المداومة، فإن تعلم تتعلم ثم تداویھا، فإن توجد امرأة تعلم المداومة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاک أو بلاء أو وجع لا تحملہ یداویھا الرجل، لکن لا یکشف منھا إلا موضع الجرح ویغض بصرہ مااستطاع."

(کتاب الاستحسان، 6/ 499، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: میری شادی کو بارہ برس گذر گیے، میری منی میں جراثیم مردہ پائے گیے ہیں، اس لیے بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جس طرح ٹیوب سے مویشی کو حمل کرایا جاتا ہے، اسی طرح تم اپنی عورت کو حاملہ کرالو، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ الجواب: عورت کو اس طرح گھوڑی بناکر اولاد حاصل کرنا  ہر گز جائز نہیں، ڈاکٹروں اور حکیموں سے اپنا علاج کرائیں، اور حق تعالی سے دعاء کریں۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، 18/ 324، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

احسن الفتاوی میں ہے:

"ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریق کار میں کسی ایسے مرض کا علاج نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف میں ابتلاء ہو، یہ دفع مضرت بدنیہ نہیں بلکہ جلب منفعت ہے، اس لیے یہ عمل لیڈی ڈاکٹر سے بھی کروانا جائز نہیں، مرد ڈاکٹر سے کروانا انتہائی بے دینی کے علاوہ ایسی بے غیرتی و بےشرمی بھی ہے جس کے تصور سےبھی انسانیت کو سوں دور بھاگتی ہے، اللہ تعالی کو ناراض کرکے جو اولاد حاصل کی گئی وہ وبال ہی بنے گی"۔

(کتاب الحظر والاباحۃ، 8/ 215،  ط:سعید)

نظام الفتاوی  میں ہے:

"وہ اجنبیہ عورت جس کے رحم میں انجکشن سے شوہر کے علاوہ کسی مرد کا مادہ منویہ پہونچایا گیا ہو، وہ عوت عقل سلیم کے نزدیک مزنیہ اور طوائف سے بھی زیادہ فاحشہ قرار پائے گی، او راس کی شناعت عقل سلیم کے نزدیک زنا و لواطت سے بھی زیادہ قبیح و مذموم ہوگی، اور صورت تو اضطرار کی ہے نہیں، اس لیے اس کی بھی اجازت ہر گز نہ ہوگی"۔

(کتاب الحظر و الاباحۃ، 1/ 337، ط: رحمانیہ لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100708

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں