بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

IUD لگانے کے بعد آنے والے خون کا حکم


سوال

26 اپریل کو چوتھے سی سیکشن میں میری ایک بچی کی پیدائش ہوئی، میرے چالیس دن ہوچکے ہیں ،لیکن خون ابھی تک بند نہیں ہوا، میرے پہلے حمل میں ایسا کبھی نہیں ہوا، اس بار فرق صرف اتنا ہے کہ آپریشن کے دوران میری بچہ دانی میں IUD لگی ہوئی ہے،تب سے مجھے بدن کے اندر متعدد باراندرونی اعضاءاوربافتوں کے آپس میں چپکنےکامسئلہ درپیش ہے، اس لیے ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ مجھے ligation(حمل روکنےکےلیےرگ بندی یانس بندی)کے لیے جانا چاہیے جس سے میں متفق نہیں تھی، ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق میںplacenta accreta(حمل کےدوران نال کابچہ دانی کی دیوار میں گہرائی کےساتھ بڑھ جانا)پیدا کر سکتی ہوں، دوبارہ او بی ایس کولیسٹیسِس(جگر کادرست طریقہ پرکام نہ کرناجس کی وجہ سے بعض مرتبہ جسم میں کھجلی ہوجاتی ہے)کی تشخیص ہو جائے گی ،اور اگر میں دوسری بار حاملہ ہوئی تو آپریشن زیادہ مشکل ہو جائےگا، میرے چوتھے حمل کی ایک مختصر جھلک یہ ہے کہ مجھے اپنے 32ویں ہفتے میں (obs cholestasis)کی تشخیص ہوئی تھی، اور 37ویں ہفتے کے آغاز میں بچے کی پیدائش تک ہسپتال میں داخل رہنا پڑا،طبی حالات کی وجہ سے میں ligation کے لیے جانے کے بجائے IUD لگانے گئی، میں  IUDکے بارے میں جتنا جانتی ہوں  وہ  یہ ہےکہ اس کی وجہ سے 6 ماہ تک دھبےآسکتے ہیں یا خون بہہ سکتا ہے، اور پھر یہ آخرکار ٹھیک ہو جاتا ہے، اب میں  اس وقت بھی نماز پڑھوں جب یہ زیادہ خون بہہ رہا ہو؟ یا اس خون کو ماہواری سمجھا جائے گا ؟اور مجھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگرسائلہ  کےچالیس دن نفاس کے ہیں،تو اِن دنوں میں نماز، روزہ وغیرہ چھوڑدے،پھر  سائلہ کےبیان کےمطابق جب چالیس دن کے بعد بوجہ IUDکے چھ ماہ تک دھبےیا خون   جوبہہ رہا ہو،توایسی صورت میں سائلہ پرحیض کےایام کےعلاوہ باقی ایام میں استحاضہ کے  احکام جاری ہوں گے،یعنی حیض کےایام عادت کےمطابق جتنےدن حیض کےہوں گےان دنوں میں نمازنہیں پڑھنی ہوگی،ان کےعلاوہ ایام میں اگرخون کےدھبےآتےرہےتو ان دنوں میں سائلہ خون دھو کر وضوکرے اور اس کے بعد نمازیں وغیرہ پڑھنا شروع کردے اگر چہ خون بہتا رہے ،البتہ ہر نماز کے وقت   ایک وضو کرلے اور   پھر دوسری نماز کا وقت آنے تک اسی وضو سے جتنی چاہے نمازیں خواہ فرض ہو یا نفل پڑھ سکتی ہے،اسی طرح تلاوت،ذکر واذکار، طواف وغیرہ  بھی کر سکتی ہے، ہاں اگر  پوری نماز کے وقت میں  اس خون والے عذر کے علاوہ کسی اور وجہ سے وضو  ٹوٹ  جاۓ تو ایسی صورت میں  دوبارہ وضو کرنا ہوگا،نیز  عادت کے ایام (چالیس)کے علاوہ بقیہ دنوں میں سائلہ  رمضان کے روزے رکھے گی، اسی طرح قضا روزے اور دوسری عبادات بھی معمول کے مطابق کرسکتی ہے۔

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"المستحاضة ‌تتوضأ ‌لوقت ‌كل ‌صلاة" رواه سبط ابن الجوزي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى فسائر ذوي الأعذار في حكم المستحاضة فالدليل يشملهم "ويصلون به" أي بوضوئهم في الوقت ما شاؤوا من "النوافل."

(‌‌كتاب الطهارة، باب الحيض والنفاس والإستحاضة، ص:149، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

درمختار میں ہے:

"(ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتا كاملا (لا يمنع صوما وصلاة) ولو نفلا (وجماعا) لحديث توضئي وصلي ‌وإن ‌قطر ‌الدم على الحصير."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الحيض، ص:44، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(قوله لا يمنع صوما إلخ) أي ولا قراءة ومس مصحف ‌ودخول ‌مسجد وكذا لا تمنع عن الطواف إذا أمنت من اللوث قهستاني عن الخزانة."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الحيض، ج:1، ص:298، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں