بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استمناء بالید مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟


سوال

1۔ عام طور پر ہم علماء کرام سے سنتے ہیں کہ مشت زنی کرنا مکروہ تحریمی ہے، لیکن مفتی صاحب جیسے کہ پوری امت کا اتفاق ہے کہ مشت زنی کے بارے میں وارد ساری احادیث ضعیف ہیں، اور ضعیف احادیث صرف فضائل میں بیان ہوتی ہیں، اس سے حرام اور حلال کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔

2۔ علماء کرام سورہ مومنون کی آیت 6،7 سے استدلال پکڑتے ہیں ،لیکن اگر دیکھا جائے تو وہاں "حافظون"کا لفظ استعمال ہوا ہے،اگر اس کا مطلب اپنی شرمگاہ کو لونڈی اور بیوی کے علاوہ اپنے آپ سے بھی حفاظت کرانے والا لیا جائے، تو پھر تو اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگانا، اور دیکھنابھی جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ جس طرح بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی کے شرمگاہ کو دیکھنا، اور ہاتھ لگانا جائز نہیں تو اسی طرح خود لگانا بھی جائز نہیں، لیکن حدیث میں تو اس کا الٹ ہے شرمگاہ کو ہاتھ لگانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، اگر اس کی تشریح یہ کی جائے کہ وہ تو ضرورت کی وجہ سے ہاتھ لگانا جائز ہے، تو پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی محدث یا فقیہ نے آج تک اپنی شرگاہ کو بنا ضرورت ہاتھ لگانے کو حرام قرار نہیں دیا ،تو اس تفصیل کی روشنی میں مندرجہ بالا آیات کے مفہوم سے یہی نکلتا ہے کہ یہاں اللہ تعالی ہمیں حرام انٹرکورس سے منع کرنا چاہتا ہے، جیسے زنا لواطت وغیرہ ۔

3۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث سے مشت زنی کی حرمت کا نتیجہ نکالا جائے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی طاقت نہ رکھنے کی صورت میں روزوں کا حکم دیا ،اور مشت زنی کا حکم نہیں دیا، مفتی صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان نہیں کہ وہ مکروہ تنزیہی کا حکم دے کسی کو، بلکہ پیغمبر ہمیشہ اعلی چیز کا حکم دیتے ہیں بلا شبہ کثرت سے روزے رکھنا مشت زنی سے ہزار گنا بہتر ہے، تو یہاں سے بھی مشت زنی کے حرام ہونے کا استدلال نہیں کیاجا سکتا ۔

4۔اور اگر عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے حالت سفر میں بیوی سے دور ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو خصی کرنے کی اجازت مانگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی تو اس سے بھی مشت زنی کے مکروہ تحریمی کا استدلال نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ کسی چیز کا حکم نہ دینا اس چیز کے حرام ہونے کی دلالت نہیں کرتا، اور جیسے کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کثرت سے روزے رکھنا مشت زنی سے ہزار گنا بہتر ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان نہ تھا کہ مکروہ تنزیہی کا حکم دیتے اور بہت سارے تابعین سے اس کے مکروہ تنزیہی اور یا مباح کا تذکرہ بھی ملتا ہے ،جیسے نمونے کے طور پر عمر بن دینا ،عطاء وغیرہ

5۔اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے جس شخص نے سوال کیا وہ زنا کے بارے میں تو اس نے جواب دیا کہ اس سے اچھا تھا کہ آپ لونڈی سے نکاح کرتے ، اور ہاں یہ زنا سے بہتر ہے تو اس روایت سے بھی مشت زنی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے سوال سنتے ہی سر جھکایا یا منہ پھیر لیا تھا، تو لہذا یہ عمل مکروہ تحریمی ہے تو اس روایت میں کہیں بھی نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو گناہ سمجھ کر منہ پھیر لیا، پہلے تو یہ روایت ضعیف ہے، اگر صحیح بھی مانا جائے تو یہ منہ پھیرنا شرم کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، یہاں پر بات دلائل سے واضح نہیں تو پھر علماء کرام کس دلیل کی وجہ سے مشت زنی کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں، مہربانی فرما کر اس مسئلے کی ہرپہلو کو غور سے مطالعہ کرکے جواب عنایت کی جائے ،صرف فقہ حنفی میں چوں کہ مکروہ تحریمی ہے ،اس لئے ہم بھی مکروہ تحریمی کہیں گے، اس پر اکتفا نہ کیا جائے کسی بھی قسم کی اگر گستاخی کی ہو یا الفاظ نا مناسب ہو اس کے لئے معافی چاہتا ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے چند اعتراضات ہیں، جن کے ذیل میں جوابات ذکر کیے جاتے ہیں:

1۔واضح رہے کہ سائل کا یہ دعوی کرنا کہ استمناء بالید کے متعلق تمام تر احادیث و روایات ضعیف  ہیں،صحیح نہیں ہے،بلکہ ایسی  مرویات بھی کتب احادیث میں  مذکور  ہیں جو صحیح  ہیں یا ضعف  ہونے کے باوجود حد تواتر کو پہنچ چکی  ہوں،  جیسے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت جو کہ حوالہ جات میں مذکور ہے،اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ،نیزضعیف احادیث کے بارے میں اصول یہ ہےکہ اگر کسی حدیث کو ایک محدث یا بعض محدثین ضعیف قرار دیں، لیکن دوسرا محدث یا کئی محدثین اس کی تصحیح کریں یا اسے عملاً قبول کرلیں، یا کسی حدیث کو بعد کے محدثین تو ضعیف قرار دیں (مثلاً بعد کے کسی راوی کے ضعف کی وجہ سے) لیکن امامِ مجتہد نے ان محدثین کے زمانے سے پہلے اس حوالے سے ان احادیث کوچانچنےاورپرکھنےکے بعد کسی حدیث کو قبول کرلیا ہو تو محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے سے امامِ مجتہد کا استدلال ضعیف یا ناقابلِ اعتبار نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے ضعیف حدیث پر عمل کرنا کہا جاتاہے، بلکہ قرونِ اولیٰ کا کسی حدیث کو عملاً قبول کرنا اس کی تصحیح ہے، یہ نکتہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ جو بات تواترِ قولی یا تواترِ عملی سے ثابت ہو، اس کے لیے روایات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، ہاں اگر اس متواتر عمل کی موافقت میں کوئی حدیث منقول ہو تو وہ  اس کی تائید شمار ہوتی ہے، اب اگر کسی متواتر ثابت شدہ چیز  یا قرونِ اولیٰ میں اہلِ علم کے درمیان مشہور عمل کی تائید کسی ضعیف روایت سے بھی ہورہی ہو (مثلاً اس کی سند میں ضعف ہو) تو اس حدیث کو اس کے اثبات میں بیان کردیا جاتاہے، گو اصل عمل ضعیف سے ثابت نہیں ہوتا، لیکن اس کے ثبوت میں اسے بھی پیش کردیا جاتاہے،ہاں جس حدیث کے ضعف کو جمہور محدثین و فقہاءِ کرام تسلیم کرتے ہوں ،اس کے حوالے سے جمہور محدثین وفقہاءِ کرام کی رائے یہ ہے کہ  ضعیف حدیث کو فضا ئلِ اعمال ،ترغیب و ترہیب ،قصص اور مغازی وغیرہ میں دلیل بنایا جاسکتا ہے ۔

 2۔سائل نے سورہ مومنون کی آیت نمبر :6،7  کے متعلق ایک تاویل پیش کی ہے،جو کہ تاویل بعید ہے،اور مفسرین میں سے کسی نے بھی اس آیت کی تفسیر کو اس طرح سےبیان نہیں کیا،لہذا قرآن کےکسی آیت کے ایسے محامل بیان کرنا جس کو مفسرین میں سے کسی نے ذکر نہیں کیاہو ،اور اپنے آپ سے ایک توجیہ پیش کرنا ،جائز نہیں، اور آیت میں لفظ "حافظون "اور وراء ذالک"سے مراد یہ ہےکہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں کے علاوہ کسی بھی طریقہ سے شہوتِ نفس کو پورا کرنے سے بچنا،اور مذکورہ دو طریقوں کے علاوہ کسی  ناجائزطریقہ سے شہوت رانی میں مبتلا نہ ہونا،اور ان دو طریقوں کے علاوہ طریقوں میں جمہور مفسرین اور اور جمہور علماء کرام نے استمناء بالید کو بھی داخل کیا ہے،نیز انسان کااپنی شرمگاہ بغیر ضرورت کے دیکھنا اور ہاتھ لگانا،ناپسندیدہ عمل ہے،اور خاص طور پر جب  گناہ میں مبتلاء ہونے کا اندیشہ ہو( یعنی استمناء بالید)تویہ مکروہ تحریمی اور حرام ہے،اور شرمگاہ کو صرف ہاتھ خواہ وہ ضرورت کے تحت ہو یا بلا ضرورت کے ہو،اور باقاعدہ ہاتھ کے ذریعہ سےلذت لے کر اخراج منی یعنی استمناء بالید کا عمل دونوں ایک چیز نہیں بلکہ  دونوں میں فرق ہے،اور سائل نے اپنے فلسفیانہ انداز میں دونوں کو ایک پیرائے میں لانے کی کوشش کی ہے،لہذا اس سے استمناء بالید کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔

اللہ تعالی نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام کائنات اوربالخصوص امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمام احکامِ شرع کی تشریح کے لیے مبعوث فرمایا ہے،اور  کسی شرعی حکم کے بیان کرنے میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شرماتے نہیں ہے،تو جس طرح سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےشہوت کے غلبہ  اور نکاح پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں روزوں کو امت کے لیے ایک علاج کے طور پر بیان فرمایا ہے،تو اگر استمناء بالید میں کوئی شفاء یاعلاج  ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو برملا بیان کرتے۔

4۔مذکورہ حدیث میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نےباوجود  ایسی حالت کےکہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ شہوت کی وجہ سے خصی ہونے کی اجازت مانگ رہے تھے، پھر بھی آپ صلی علیہ وسلم نے استمناء بالید کی اباحت یا جواز کا تذکرہ نہیں کیا،یہ  اس بات کی  دلیل ہےکہ استمناء بالید مکروہ اور حرام  ہے ،اگر یہ عمل مباح یا مکروہ تنزیہی کے ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کم از کم اس کی اجازت  دیتے۔جو عمل مباح ہو یا اباحت کے قریب (مکروہ تنزیہی)ہو،اس کے بارے میں یہ قاعدہ ہے کہ یا تو اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواز کا بتایا ہوگایا اس کے جواز بتانے کے لیےاپنی حیات مبارک میں کبھی اس پر عمل کر کے دیکھایا ہوگایاصحابہ کرام رضہ اللہ عنھم اجمعین سے اس پر عمل ثابت ہوگا،اور مذکورہ فعل کا معاملہ اس کے بر عکس ہے،لہذا یہ مکروہ اور حرام ہی ہے،نیز جن بعض حضرات کے نزدیک استمناع بالید مکروہ تنزیہی ہے،انہوں نے بھی اس کی اجازت اس بات پر معلق  کی ہے کہ  اگر  کسی بندےکو  زنا میں مبتلا ہونےکااندیشہ  ہوتو زنا سے بچنے کے لیے  اخف پر عمل کی گنجائش  ہے۔

5۔اولاً مذکورہ روایت متعدد طرق کی وجہ سے قابل قبول ہے،ثانیاًجس طرح سے آپ کا دعوی ہے کہ اس حدیث سے کراہت تحریمی ثابت نہیں ہوتی تو اسی طرح اس حدیث سے مطلقًااباحت یا کراہت تزیہی بھی ثابت نہیں ہوتی؛  کیوں کہ مذکورہ حدیث میں لڑکے کا مقصد صرف غلبہ شہوت کی صورت میں استمناء بالید کا حکم معلوم کرنا تھا جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی مطلقاًجواز  کا حکم نہیں دیا،نیز صرف فقہاءِ احناف ہی  اس کے حرمت کے قائل نہیں،  بلکہ تمام فقہاء اس کی  حرمت کے قائل ہے،  جن حضرات سے مکروہ تنزیہی کا قول منقول ہے وہ مقید اور خاص حالت پر محمول ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ استمناء بالید  ایک تو فطری طور پر ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے،اور دوسرا جس چیز( نطفہ) سے توالد و تناسل کا عمل ممکن ہوتا ہےاس کو  ضائع کرنا ہے،قرآن کریم کی آیت "فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون" کے تحت اکثر مفسرین اور جمہور فقہاء کرام نے اس کو ناجائز و حرام قرار دیا ہے۔

تفسیر طبری میں ہے:

"قوله: (‌فمن ‌ابتغى ‌وراء ‌ذلك ‌فأولئك ‌هم ‌العادون) فمن التمس لفرجه منكحا سوى زوجته، أو ملك يمينه، ففاعلو ذلك هم العادون، الذي عدوا ما أحل الله لهم إلى ما حرم عليهم فهم الملومون."

(المعارج(29)، ج:23 ص:617 ط: دار التربیة والتراث)

تفسیر کبیر میں ہے:

"والذين هم لفروجهم ‌حافظون إلا على أزواجهم معناه أنه يجب حفظ الفروج عن الكل إلا في هاتين الصورتين فإني ما ذكرت حكمهما لا بالنفي ولا بالإثبات الثاني: أنا إن سلمنا أن الاستثناء من النفي إثبات، فغايته أنه عام دخله التخصيص بالدليل فيبقى فيما وراءه حجة."

(سورة المؤمنون: 23، الآيات: 1 إلى: 11، ج:23 ص:226 ط: دار إحياء التراث العربي)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله: {والذين هم لفروجهم حافظون. إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم فإنهم غير ملومين  فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون} أي: والذين قد حفظوا فروجهم من الحرام، فلا يقعون فيما نهاهم الله عنه من زنا أو لواط، ولا يقربون سوى أزواجهم التي أحلها الله لهم، وما ملكت أيمانهم من السراري، ومن تعاطى ما أحله الله له فلا لوم عليه ولا حرج؛ ولهذا  قال: {فإنهم غير ملومين فمن ابتغى وراء ذلك} أي: غير الأزواج والإماء، {فأولئك هم العادون} أي: المعتدون.وقال ابن جرير: حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا سعيد، عن قتادة، أن امرأة اتخذت مملوكها، وقالت: تأولت آية من كتاب الله: {أو ما ملكت أيمانهم} قال : فأتي بها عمر ابن الخطاب، فقال له ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: تأولت آية من كتاب الله على غير وجهها. قال: فغرب العبد وجز رأسه: وقال: أنت بعده حرام على كل مسلم. هذا أثر غريب منقطع، ذكره  ابن جرير في أول تفسير سورة المائدة ، وهو هاهنا أليق، وإنما حرمها على الرجال معاملة لها بنقيض قصدها، والله أعلم.وقد استدل الإمام الشافعي، رحمه الله، ومن وافقه على تحريم الاستمناء باليد بهذه الآية الكريمة {والذين هم لفروجهم حافظون. إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} قال: فهذا الصنيع خارج عن هذين القسمين، وقد قال: {فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون} وقد استأنسوا بحديث رواه الإمام الحسن بن عرفة في جزئه المشهور حيث قال:حدثني علي بن ثابت الجزري، عن مسلمة بن جعفر، عن حسان بن حميد ، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العاملين، ويدخلهم النار أول الداخلين، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: ناكح يده ، والفاعل، والمفعول به، ومدمن  الخمر، والضارب والديه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره."

(سورة المؤمنون: 23 : الآيات: 1 إلى: 11، ج:5 ص:403،404 ط: دار الكتب العلمية)

البحر المحیط میں ہے:

"ويشمل قوله وراء ذلك الزنا واللواط ومواقعة البهائم والاستمناء ومعنى وراء ذلك وراء هذا الحد الذي حد من الأزواج ومملوكات النساء، وانتصابه على أنه مفعول بابتغى أي خلاف ذلك...والجمهور على تحريم ‌الاستمناء ويسمى الخضخضة وجلد عميرة يكنون عن الذكر بعميرة."

(سورة المؤمنون: 23 : الآيات: 1 إلى: 77، ج:7 ص:549 ط: دار الفکر)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"الرابعة: من تاقت نفسه إلى النكاح فإن وجد الطول فالمستحب له أن يتزوج، وإن لم يجد الطول فعليه بالاستعفاف فإن أمكن ولو بالصوم فإن الصوم له وجاء ، كما جاء في الخبر الصحيح. ومن لم تتق نفسه إلى النكاح فالأولى له التخلي لعبادة الله تعالى. وفي الخبر (خيركم الخفيف الحاذ  الذي لا أهل له ولا ولد). وقد تقدم جواز نكاح الإماء عند عدم الطول للحرة في" النساء والحمد لله. ولما لم يجعل الله له بين العفة والنكاح درجة دل على أن ما عداهما محرم ولا يدخل فيه ملك اليمين لأنه بنص آخر مباح، وهو قوله تعالى: " أو ما ملكت أيمانكم" فجاءت فيه زيادة، ويبقى على التحريم الاستمناء ردا على أحمد."

(سورة النور :24: الآيات 33 إلى 34 ، ج:12 ص:244 ط: دار الكتب المصرية)

و فیہ ایضاً:

"قوله تعالى: (والذين هم لفروجهم حافظون) قال ابن العربي:" من غريب القرآن أن هذه الآيات العشر عامة في الرجال والنساء، كسائر ألفاظ القرآن التي هي محتملة لهم فإنها عامة فيهم، إلا قوله" والذين هم لفروجهم حافظون" فإنما خاطب بها الرجال خاصة دون الزوجات، بدليل قوله:" إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم". وإنما عرف حفظ المرأة فرجها من أدلة أخرى كآيات الإحصان عموما وخصوصا وغير ذلك من الأدلة". قلت: وعلى هذا التأويل في الآية فلا يحل لامرأة أن يطأها من تملكه إجماعا من العلماء، لأنها غير داخلة في الآية، ولكنها لو أعتقته بعد ملكها له جاز له أن يتزوجها كما يجوز لغيره عند الجمهور. وروي عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة والشعبي والنخعي أنها لو أعتقته حين ملكته كانا على نكاحهما. قال أبو عمر: ولا يقل هذا أحد من فقهاء الأمصار، لأن تملكها عندهم يبطل النكاح بينهما، وليس ذلك بطلاق وإنما هو فسخ للنكاح، وأنها لو أعتقته بعد ملكها له لم يراجعها إلا بنكاح جديد ولو كانت في عدة منه. الخامسة- قال محمد بن عبد الحكم: سمعت حرملة بن عبد العزيز قال: سألت مالكا عن الرجل يجلد عميرة، فتلا هذه الآية:" والذين هم لفروجهم حافظون"- إلى قوله-" العادون". وهذا لأنهم يكنون عن الذكر بعميرة، وفيه يقول الشاعر:

إذا حللت بواد لا أنيس به … فاجلد عميرة لا داء ولا حرج

ويسميه أهل العراق الاستمناء، وهو استفعال من المني. وأحمد بن حنبل على ورعه يجوزه، ويحتج بأنه إخراج فضلة من البدن فجاز عند الحاجة، أصله الفصد والحجامة. وعامة العلماء على تحريمه. وقال بعض العلماء: إنه كالفاعل بنفسه، وهي معصية أحدثها الشيطان وأجراها بين الناس حتى صارت قيلة، ويا ليتها لم تقل، ولو قام الدليل على جوازها لكان ذو المروءة يعرض عنها لدناءتها. فإن قيل: إنها خير من نكاح الأمة، قلنا: نكاح الأمة ولو كانت كافرة على مذهب بعض العلماء خير من هذا، وإن كان قد قال به قائل أيضا، ولكن الاستمناء ضعيف في الدليل، عار بالرجل الدنيء  فكيف بالرجل الكبير العلماء على تحريمه. وقال بعض العلماء: إنه كالفاعل بنفسه، وهي معصية أحدثها الشيطان وأجراها بين الناس حتى صارت قيلة، ويا ليتها لم تقل، ولو قام الدليل على جوازها لكان ذو المروءة يعرض عنها لدناءتها. فإن قيل: إنها خير من نكاح الأمة، قلنا: نكاح الأمة ولو كانت كافرة على مذهب بعض العلماء خير من هذا، وإن كان قد قال به قائل أيضا، ولكن الاستمناء ضعيف في الدليل، عار بالرجل الدنيء  فكيف بالرجل الكبير. السادسة- قوله تعالى: (إلا على أزواجهم) قال الفراء: أي من أزواجهم اللاتي أحل الله لهم لا يجاوزون. (أو ما ملكت أيمانهم) في موضع خفض معطوفة على" أزواجهم " و" ما" مصدرية. وهذا يقتضي تحريم الزنى، وما قلناه من الاستنماء."

(سورة المؤمنون: 23: الآيات: 1 إلى: 11، ج:12 ص:105،106 ط: دار الكتب المصرية)

شعب الایمان میں ہے:

"أخبرنا أبو علي الروذباري وأبو عبد الله الحسين بن عمر بن برهان الغزال وأبو الحسين بن الفضل القطان وأبو محمد بن عبد الجبار السكري نا إسماعيل بن محمد الصفار ثنا الحسن بن عرفة ثنا علي بن ثابت الجزري عن مسلمة بن جعفر عن حسان بن حميد عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:«سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولا يجمعهم مع العالمين يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا إلا أن يتوبوا إلا أن يتوبوا فمن تاب تاب الله عليه الناكح يده ‌والفاعل ‌والمفعول ‌به [والمدمن بالخمر] والضارب أبويه حتى يستغ

يثا والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه والناكح حليلة جاره».

تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا، قال البخاري في التاريخ: قال قتيبة عن جميل هو الراسبي عن مسلمة بن جعفر عن حسان بن جميل عن أنس بن مالك قال: يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى."

(تحريم الفروج وما يجب من التعفف عنها، ج:4 ص:278 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"في الجوهرة: ‌الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه."

(كتاب الحدود، باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، فرع الاستمناء، ج:4 ص:27 ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن ‌الاستمناء بالكف، فيجب التزوج، وإن لم يخف الوقوع في الزنا."

(كتاب النکاح، ج:3 ص:6 ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"وكذا ‌الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه." 

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:9 ص:399 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌الاستمناء حرام، وفيه التعزير، ولو مكن امرأته، أو أمته من العبث بذكره، فأنزل، فإنه مكروه، ولا شيء عليه، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب السرقة، الباب الأول في بيان السرقة وما تظهر به، ج:2 ص:170 ط: رشیدیة)

معارف القرآن میں ہے:

"{فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ} ، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاءِ شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں، اس میں زنا بھی داخل ہے ،اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے، اس سے نکاح بھی حکمِ زنا ہے، اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے،یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی، اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے۔" (از تفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ)

(سورہ  مؤمنون،چھوتھا وصف :شرمگاہوں کی حفاظت،ج:6ص:297،298ط:ادارۃ المعارف کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503103050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں