بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استمنا بالید سے غسل فرض ہونا اور قضا نمازوں کو لوٹانا


سوال

ایک آدمی یہ نہیں جانتا تھا کہ استمنا بالید کرنے سے غسل فرض ہوتا ہے اور اسی طرح وہ نماز پڑھتا رہا ، اب جاننا یہ ہے کہ کیا اس کو مسئلہ معلوم ہونے کے بعد پچھلے نمازیں لوٹانا پڑیں گی؟

جواب

واضح رہے کہ  مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ  کا کام ہے،قرآن و  احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ} (سورۃ المومنون ،  آیت ، ۵ تا ۸)

ترجمہ:  اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں، مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر، سو ان پر نہیں کچھ الزام۔ پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔

  (بیان القرآن)

اور  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔۔۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

لہذا اس گناہ سے اجتناب کرنا لازم ہے، صورت مسئولہ میں  سائل کو چاہیے کہ    سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اس جرم عظیم پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے پکا عزم کرے کہ اب یہ گناہ نہیں کرے گا اور  نماز بھی جان بوجھ کر قضا نہیں کرے گا، توبہ کرنے کے بعد گزشتہ فوت شدہ نمازیں جو سائل نے بغیر غسل کی پڑی ہواس کی قضا پڑھنا بھی لازم ہے، صرف توبہ کرلینے سے فوت شدہ نمازیں ذمہ سے معاف نہیں ہوں گی۔ اور قضا نمازوں کو دورانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اگرسائل کو بغیر غسل کی نمازوں کی تعداد معلوم ہو ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے اوربغیر غسل کی نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو اور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو  تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں، جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔ 

شعب الایمان میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره."

(شعب الايمان، باب في تحريم الفروج، فصل في الترغيب في النكاح لما فيه عون على حفظ الفرج، 7 /329)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، 2 /76، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں