بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استعمال کے لیے لیے ہوئے جانور سے قربانی کرنے کا حکم


سوال

 ادھار لیے ہوئے جانور سے قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟  میں "قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا" نامی کتاب پڑھ رہا تھا تو ایک مسئلہ صفحہ نمبر 27 پر نظر سے گزرا کہ "ادھار لیے ہوئے جانور سے قربانی کرنا درست نہیں، کیوں کہ وہ غیر کی ملک میں ہے" ، آں جناب سے دست بستہ عرض ہے کہ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قربانی کا جانور ادھار خرید کر اس سے  قربانی کی تو قربانی ہوجائے گی، کیوں کہ  ادھار خریدا ہوا جانور قربانی کرنے  والے کی ملکیت میں ہے، البتہ مذکورہ کتاب میں جو مسئلہ بیان کیا ہے اس سے مراد ادھار (عاریت یعنی استعمال کے لیے) لیے ہوئے جانور سے قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی، کیوں کہ اس صورت میں ذبح شدہ جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

ولو أودع رجل رجلا شاة يضحي بها المستودع عن نفسه يوم النحر فاختار صاحبها القيمة ورضي بها فأخذها فإنها لا تجزي المستودع من أضحيته، بخلاف الشاة المغصوبة والمستحقة، ووجه الفرق أن سبب وجوب الضمان ههنا هو الذبح والملك ثبت بعد تمام السبب - وهو الذبح - فكان الذبح مصادفا ملك غيره فلا يجزيه، بخلاف الغاصب فإنه كان ضامنا قبل الذبح لوجود سبب وجوب الضمان وهو الغصب السابق، فعند اختيار الضمان أو أدائه يثبت الملك له من وقت السبب وهو الغصب فالذبح صادف ملك نفسه فجاز، وكل جواب عرفته في الوديعة فهو الجواب في العارية والإجارة بأن استعار ناقة أو ثورا أو بعيرا أو استأجره فضحى به أنه لا يجزيه عن الأضحية سواء أخذها المالك أو ضمنه القيمة؛ لأنها أمانة في يده وإنما يضمنها بالذبح فصار كالوديعة، 

(کتاب التضحية، فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، ج:5، ص:77، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں