بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استعمال کے گھر میں اور رہائش کے لئے خریدے ہوئے گھر میں زکوۃ کا حکم


سوال

گاوں میں والد صاحب والے گھر میں ایک کمرہ ، برامدہ اور واش روم بنایا ہے جو صرف میری کمائی سے ہےاورمیرےہی استعمال میں ہےاور شہر میں ایک پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ اپنا علیحدہ گھر بناوں گا ،کیا اس کی زکواۃ ادا کرنی ہے؟

جواب

  جو گھر رہائش کے یے ذاتی استعمال میں ہو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی ،اسی طرح پلاٹ وغیرہ میں خریدتے وقت تجارت کی نیت نہ ہو توزکوۃ واجب نہیں  ہوتی ۔لہذا صورت ِمسئولہ میں نہ ہی گاؤں والے گھر میں زکوۃ واجب ہے اور نہ ہی شہر والےپلاٹ پر زکوۃواجب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه.

(قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب."

(كتاب الزكوة،ج:2،ص:262،ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي(أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة."

(کتاب الزکوۃ،ج:2،ص:267،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں