بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استعمال کے لیے دی ہوئی چیز کو واپس کرنا


سوال

میری بیوی ایک چھوٹے سے جھگڑے کی وجہ سے لڑ کر چلی گئی اور بچوں کو بھی ساتھ لے گئی، اس کے بھائی مجھے دھمکیاں دےکر اسے اپنے ساتھ لے گئے، اب بچوں سے بھی ملنے نہیں دے رہے ،بیوی نے اپنے گھر جا کر یہ الزامات لگائے ہیں کہ میں دوسری عورتوں سے زنا کرتا ہوں، ان سے ملتا ہوں وغیرہ، یہ رازصرف اللہ جانتا ہے کہ کیا سچ ہے؟

سوال یہ ہے کہ  بنا بتائے سارا سونے کا زیور وہ پہلے لےجا چکی تھی جو اس کے جانے کہ بعد پتا چلا، زیور میں مہر تھا اور کچھ ایسا زیور تھا جو میری خالہ نے اور میری بہن نے مجھے گفٹ کیا تھا اور میں نے اپنی بیوی کو پہننے کے لیے دیا تھا، اس کی ملکیت میں نہیں دیا تھا،اور منگنی کا زیور بھی میری ملکیت تھا، جس کی قسطیں میں اب تک بھر رہا ہوں، کیا مہر کے علاوہ جو زیور ہے وہ اس کا حق ہے یا وہ مجھے واپس کرےگی؟زیور کے حوالے سے  ہم نے اور  لڑکی والوں نے نکاح نامہ میں کچھ بھی نہیں لکھوایا تھا۔ آپ سے گزارش ہے کہ  اس کا جواب دے دیں، اور مجھے اس کا فائنل جواب فتویٰ کی شکل میں بھی چاہئے ؟ شکریہ۔ 

جواب

صورت  مسئولہ میں  مہر کے علاوہ جو سونا   آپ نے صر ف استعمال کے لیے عاریۃ  ( مالک بنائےبغیر )   دیا تھا، تو وہ آ پ کا حق ہے اور بیوی  کے پاس وہ آپ کی  امانت ہے ،  جسے جب چاہیں آپ  واپس  لے سکتے ہیں ۔

البحر الرائق میں ہے : 

  " هي تمليك المنافع بغير عوض ... ثم قال بعد سطور : وحكمها كونها أمانة ...  و قال بعده :  ويرجع المعير متى شاء ) لعدم لزومها" .

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق  ، المؤلف : زين الدين بن إبراهيم بن نجيم ، المعروف بابن نجيم المصري  ،ج : 7 ، ص : 280 الناشر : دار المعرفة ) 

شامی میں ہے :

(هي) لغة - مشددة وتخفف -: إعارة الشيء قاموس. وشرعا (تمليك المنافع مجانا) أفاد بالتمليك لزوم الإيجاب والقبول ولو فعلا وحكمها كونها أمانة ... ثم قال بعد سطور : (و) لعدم لزومها (يرجع المعير متى شاء) ... إلخ . 

(الدر المختار مع حاشيته " رد المحتار " ، المؤلف : خاتمة المحققين محمد أمين الشهير بابن عابدين  ،ج :5 ، ص : 676و677و678 الناشر : ایچ ایم سعید )

فقط  واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں