بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استعمال کی نیت سے گاڑی خریدنے کے بعد فروختگی کی نیت کرنے کی صورت میں زکوة کا حکم


سوال

اگر گاڑی لیتے وقت نیت تھی کہ استعمال کریں گے، مگر گاڑی آنے کے بعد نیت ہوگئی کہ اب اس کو بیچنا ہے، یعنی مالِ تجارت کی نیت ہوگئی، اب اس دوران ایک رمضان آگیا، جب میرے سارے نصاب پہ ایک سال گزر جاتا ہے، اب اس گاڑی جو مالِ تجارت بن گئی اس کی زکوٰة دینا ہوگی یا نہیں؟ خلاصہ یہ کہ اگر لیتے وقت نیت تجارت کی نیت نہیں تھی، بعد میں تجارت کی نیت ہوئی تو کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو چیز ذاتی استعمال کے لیے خریدی گئی ہو، وہ صرف نیت کرنے سے مالِ تجارت نہیں بنے گی، جب تک بیچ نہ دی جائے۔ جب کہ اگر کوئی چیز تجارت کی نیت سے خریدی ہو اور پھر ذاتی استعمال کی نیت کرلی، تو محض نیت سے ہی وہ مالِ تجارت نہیں رہے گی۔ 

صورتِ مسئولہ میں زکوٰة کا سال مکمل ہونے تک اگر مذکورہ گاڑی فروخت نہ ہوئی ہو تو اس کی مالیت کو زکوٰة کے حساب میں شامل نہیں کیا جائے گا، البتہ فروخت ہوجانے کے بعد حاصل شدہ کل یا اس میں سے بعض آمدنی  اگر اگلا سال مکمل ہونے تک محفوظ  رہے تو اس کو زکوٰة کے حساب میں شامل کیا جائے گا۔

فتح القدير لابن الهمام میں ہے:

"(ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر، ولهذا يصير المسافر مقيمًا بمجرد النية، ولايصير المقيم مسافرًا إلا بالسفر.

(قوله: لاتصال النية بالعمل) حاصل هذا الفصل أنّ ما كان من أعمال الجوارح فلايتحقق بمجرد النية، وما كان من التروك كفى فيه مجردها فالتجارة من الأول فلايكفي مجرد النية بخلاف تركها، ونظيره السفر والفطر والإسلام والإسامة لايثبت واحد منها إلا بالعمل، وتثبت أضدادها بمجرد النية فلايصير مسافرًا ولا مفطرًا ولا مسلمًا ولا الدابة سائمةً بمجرد النية بل بالعمل، ويصير المسافر مقيمًا والمفطر صائمًا والمسلم كافرًا والدابة علوفةً بمجرد نية هذه الأمور، والمراد بالمفطر الذي لم ينو صومًا يعد في وقت تصح فيه النية."

( كتاب الزكاة، ٢ / ١٦٨ - ١٦٩، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201457

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں