بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استخارہ والے عمل میں قلبی رجحان کے خلاف کرنا


سوال

اگر کوئی شخص کسی کام کے لئے استخارہ کرےاور استخارہ میں کام نہ کرنے کی طرف اشارہ ہو ،اس کے باوجود انسان وہ کام کرے اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ "استخارہ"  کا مطلب ہے:کسی جائزمعاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،اورجب کسی جائز معاملہ  میں تردد ہو تواس کی بہتری والی جہت طلب کرنے کے لیے استخارہ  کامسنون عمل کیا جاتا ہے،اور  استخارہ  کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی سے خیر طلب کرتا ہے،  یعنی یہ دعا کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر اور بہتری ہو،  وہی کام میرے لیے مقدر فرمادیجیے، جو کام میرے لیے بہتر نہیں وہ مجھے کرنے ہی نہ دیجیے،یہ مسنون عمل ہے۔

لہذااستخارہ کرلینے کے بعد جس کام کی طرف رجحان ہو، وہی کام کرلینا چاہیے اور اسی میں اپنے لیے بھلائی اور بہتری سمجھنی چاہیے،  اور   جس طرف  دل مطمئن نہیں تو  وہ  کام نہیں کرنا چاہیے، اس  کے نہ کرنے  میں  دنیا اور آخرت کی خیر مضمر ہوگی،  لہذااگراستخارہ میں کسی کام کےنہ کرنے کی طرف اشارہ ہوتواس کےباوجوداس کےخلاف کرنا  شرعًا حرام یا ناجائز  نہیں ہے، لیکن جب  اللہ تعالی  کی طرف سے ایک اشارہ موجود ہے کہ اس کام میں خیر نہیں تو پھراستخارہ کےمطابق ہی عمل کیاجائے،اس کےخلاف کرنابہترنہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وينبغي أن يكررها سبعا، لما روى ابن السني «يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات، ثم انظر إلى الذي سبق إلى قلبك فإن الخير فيه."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:28، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں