بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استخارہ کا مسنون طریقہ


سوال

استخارہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ کیا خواب والا استخارہ جو اکثر ہمارے گھروں میں بڑے بزرگوں میں کیا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت اور حقیقت کیا ہے؟ اور یہ بھی کہ استخارہ رشتے کے معاملے میں والدین کو کرنا چاہیے یا لڑکا لڑکی کو؟ مسئلہ یہ ہے کہ رشتے کے معاملے میں جہاں والدین مان نہ رہے ہوں اور آپ کا دل اسی طرف جھکا ہوا ہو استخارے کے باوجود بھی، وہاں حالات سے کیسے پتہ لگائیں کہ بہتری ہے یا نہیں؟ نیز یہ کہ والدین کو منانا تو پڑے گا اور اس میں وقت بھی لگے گا، تو کیا یہ ایک منفی اشارہ ہے کہ اس جگہ رشتہ کرنا بہتر نہیں؟ کیا یہ محض فطری رد عمل نہیں ہے والدین کے ماننے میں تاخیر کرنا؟ برائے کرم حالات سے نشاندہی کیسے ہو اور کن باتوں کو حالات کے خانے میں ڈالا جائے؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب

استخارہ کا معنی ہے خیر طلب کرنا۔ جب آئندہ پیش آنے والے کسی معاملے کا اچھا یا برا ہونا معلوم نہ ہو اور اس کام کے کرنے یا نہ کرنے میں تردد ہو تو بندہ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اس معاملہ میں خیر طلب کر لے، اسی کو استخارہ کہا جاتا ہے، جس کی ترغیب اور طریقہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے۔ چنانچہ ایک صحابی حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں اپنے تمام اہم امور میں استخارہ کی اس طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھا تے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ:

"جب تم میں کسی کو  کوئی اہم کام در پیش ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دو رکعت نفل نماز پڑھے پھر یہ دعا مانگے:

 

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِیْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَ أَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَ لَا أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَ لَا أَعْلَمُ، وَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِهِ وَ اٰجِلِهِ، فَاقْدِرْهُ لِيْ، وَ یَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِكْ لِيْ فِیْهِ وَ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِهِ وَ اٰجِلِهِ، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَ اصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَ اقْدِرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ.

اس کے بعد اپنی حاجت اللہ کے حضور پیش کرے۔" (بخاری و ترمذی)

دعا میں جب هٰذَا الْأَمْرَ پر پہنچے تو اپنی حاجت کا تصور کرے،اس کے بعد جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔

استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے۔ بعض بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ اگر خواب میں سفید یا سبز رنگ دیکھے تو اس کو نیک اشارہ سمجھے اور اگر سرخ یا سیاہ رنگ دیکھے تو اس کام کو نہ کرے۔ لیکن خواب آنا کوئی ضروری نہیں، جس طرف دل کا میلان ہو اس کام کو اختیار کرے۔یہی استخارہ کا مسنون طریقہ ہے، اس کے علاوہ جو طریقے عوام میں رائج ہیں ان کی شرعی کوئی حیثیت نہیں۔نیز احادیث کی رو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143504200004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں