بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استحسان کی باب العبادات سے مثال


سوال

استحسان جو اصطلاح ہے،  اس کا استعمال باب العبادات میں کر سکتے ہیں؟ یا اس کا استعمال معاملات اور معاشرت میں ہی صرف کرنا چاہیے، اگر عبادت کے باب میں کر سکتے ہیں تو مثال کے ساتھ باحوالہ توضیح مطلوب ہے۔

جواب

ائمۂ  مجتہدین و فقہاء کرام  نے حسبِ  ضرورت  ہر  باب میں دلیلِ استحسان سے کام لیا ہے، اسے کسی خاص باب کے ساتھ مخصوص نہیں کیا ہے،تلاش و تتبع کے بعد  عبادات کے باب میں اس کی کئی مثالیں مل جائیں  گی، سر دست  دو  مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

1.روزہ دار کے منہ میں کوئی ایسی چیز بلا ارادہ چلی گئی جس سے بچنا دشوار ہو مثلاً مکھی یا دھواں وغیرہ اس کےحلق میں چلا گیا تو قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے لیکن فقہاء نے استحساناً روزہ نہ ٹوٹنے کا حکم دیا ہے۔ جيساکہ فقہ کی مایہ ناز کتاب ’’الہدایہ‘‘ میں ہے:

 "ولو دخل حلقه ‌ذباب هو ذاكر لصومه لم يفطر، وفي القياس يفسد صومه لوصول المفطر إلى جوفه وإن كان لا يتغذى به كالتراب والحصاة، ووجه الاستحسان أنه لا يستطاع الاحتراز عنه فأشبه الغبار والدخان."

(كتاب الصوم، باب مايوجب القضاءوالكفارة، 1/ 121، ط: دار إحياء التراث العربي)

2.بے ہوشی کی وجہ سے کسی سے ایک دن اور ایک رات کی مسلسل نمازیں قضا ہوگئیں اور ان کی کم از کم تعداد چھ ہوگئی تو ہوش میں آنے کے بعد قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر نماز کی قضا واجب ہو لیکن فقہاء نے استحساناً ان نمازوں کی قضا واجب قرار نہیں دی، جیسا کہ ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:

"وعلى هذا إذا أغمي عليه يوما وليلة أو أقل ثم أفاق قضى ما فاته، وإن كان أكثر من يوم وليلة لا قضاء عليه عندنا استحسانا."

(كتاب الصلاة، فصل: أركان الصلاة، 1/ 108، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں