بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استغفار کی فضیلت


سوال

روزانہ ہزار مرتبہ استغفار پڑھنے کی کیا فضیلت ہے؟ اور 1000 مرتبہ صرف"اَستَغفِرُاللہَ" پڑھ سکتے ہیں یا پورا "استغفار" پڑھنا ہے؟

جواب

استغفار کی فضیلت سے متعلق جو روایات آئی ہیں اُن میں سے کچھ نقل کی جاتی ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(قیامت کے روز) جو شخص اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے ،اس کے لیے خوش خبری ہے۔" (سنن ابن ماجہ)

رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا: "اے لوگو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، بے شک میں بھی دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے: ہم ایک مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سو مرتبہ (استغفار کا یہ کلمہ پڑھنا) شمار کیا کرتے تھے: رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَتُبْ عَلَيَّ إنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔" (سنن ابو داؤد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص استغفار کرتا رہے، اُسے (گناہ پر) اصرار کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، اگرچہ دن میں ستر مرتبہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے۔" (سنن ابو داؤد)

حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص صبح کے وقت یقین کے ساتھ "سید الاستغفار" پڑھ لے  اور شام سے پہلے موت آجائے تو وہ جنت والوں میں سے ہوگا، اور جو شام میں اسے یقین کے ساتھ پڑھ لے اور صبح سے پہلے موت آجائے تو وہ جنت والوں میں سے ہوگا۔ "سید الاستغفار" یہ ہے: 

"اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لَايَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ."

ایک ہزار مرتبہ استغفار پڑھنے کی کوئی مخصوص فضیلت براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلاش کے باوجود  نہیں مل سکی، ممکن ہے کہ ایک ہزار مرتبہ استغفار پڑھنے سے متعلق کسی بزرگ کا کوئی مجرب عمل ہو، اور وہ اس کا کوئی خاص فائدہ بھی نقل کرتے ہوں، جو اُن کو تجربوں سے معلوم ہوا ہو، اس فائدہ کی معلومات اُسی جگہ سے معلوم کر لی جائیں جہاں پڑھا یا سنا ہو۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن يسر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌طوبى ‌لمن ‌وجد في صحيفته استغفارا كثيرا» . رواه ابن ماجه."

(کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبۃ، الفصل الثالث، جلد:2، صفحہ: 728، طبع: المکتب الاسلامی)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي بردة، قال: سمعت الأغر، وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، يحدث ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيها الناس توبوا إلى الله، فإني أتوب، في اليوم إليه ‌مائة، ‌مرة."

(کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب استحباب الاستغفار، جلد:4، صفحہ: 2075، طبع: مطبعة عيسی البابی الحلبی وشركاه، القاهرة)

سنن ابی داؤد ميں ہے:

"عن ابن عمر قال: إنْ كنَّا لنعُدُّ لرسولِ الله - صلَّى الله عليه وسلم - في المجلسِ الواحِدِ مائة مرةِ "رَبِّ اغفِر لي وتُب علىَّ، ‌إنَك ‌أنتَ التَّوابُ الرحيم"

(ابواب فضائل القرآن، باب فی الاستغفار، جلد:2، صفحه: 627، طبع: دار الرسالة العالمية)

وفیہ ایضاً:

"عن أبي بكر الصديق قال: قال رسولُ الله - صلَّى الله عليه وسلم -: "ما أصرَّ مَنِ استَغْفَرَ وإن عادَ في اليوم ‌سبعينَ مرَّة."

(ابواب فضائل القرآن، باب فی الاستغفار، جلد:2، صفحه: 625، طبع: دار الرسالة العالمية)

صحيح البخاري  میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم: " سيد الاستغفار أن تقول: اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدك، وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت، أعوذ بك من شر ما صنعت، أبوء لك بنعمتك علي، وأبوء لك بذنبي فاغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت " قال: «و من قالها من النهار موقنًا بها، فمات من يومه قبل أن يمسي، فهو من أهل الجنة، ومن قالها من الليل وهو موقنًا بها، فمات قبل أن يصبح، فهو من أهل الجنة»."

(کتاب الدعوات، باب افضل الاسغفار، جلد:8، صفحہ: 67، طبع: السلطانیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں