اگر کوئی پیشاب کرنے کے بعد استنجا نہ کرے اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا اس حالت میں ہم بستری کرنا جائز ہے ؟
واضح رہے کہ پیشاب کرنے کے بعد استنجاء کرکے بیوی سے صحبت کرنا مسنون طریقہ ہے،البتہ پیشاب کرنےکے بعد استنجاء کے بغیر بیوی سے صحبت کرے تو یہ بھی جائز ہے۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أتى أحدكم أهله، ثم بدا له أن يعاود، فليتوضأ بينهما وضوءا»."
(كتاب الطهارة، باب الوضوء لمن أراد أن يعود، ج: 1، ص: 57، ط: المكتبة العصرية بيروت)
واضح رہے کہ نماز سے قبل استنجا کرنا شرعًا ضروری نہیں، البتہ قضاءِ حاجت کے بعد استنجا ضروری ہے اگر پیشاب کے دوران پیشاب کے قطرات سوراخ سے تجاوز نہ ہوئے ہوں یا عضو مخصوص کے ایک درھم سے کم حصہ پر قطرات پھیلے ہوں توایسی صورت میں استنجاء کرنا مسنون ہےاور اگر پیشاب کا اثر سوراخ کو چھوڑکر عضو پر ایک درہم سے زائد لگا ہو تو ایسی صورت میں عضو مخصوص کے اس جگہ کو پانی سے دھونا (استنجا کرنا) واجب ہوگا، پیشاب کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پہلے کسی ڈھیلے یا ٹشو پیپر وغیرہ سے قطرات کو خشک کریں ، اس کے بعد پانی کا استعمال کریں۔اس طریقے سے مثانہ اور پیشاب کی نالی اچھی طرح خالی ہو جاتی ہے، فارغ ہونے کے بعد قطرے وغیرہ ٹپکنے سے امن رہتا ہے۔
حدیث مبارک میں ہے کہ "حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کوئی بڑے اور مشکل کاموں کی وجہ سے نہیں ہو رہا؛ بلکہ ان میں سے ایک کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور دوسرے کو غیبت کرنے کی وجہ سے“۔
(سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب: التشدید في البول، رقم الحدیث: ۳۴۹، ۱/۲۱۹، دار المعرفة، بیروت )
نیز واضح رہے کہ اگر کوئی آدمی استنجاء کئے بغیر اپنی بیوی سے صحبت کرنا چاہے تو فضیلت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی شرم گاہ کو دھو لے اور نماز والا وضو کر لے، یا شرم گاہ اور ہاتھ منہ دھو لے پھر صحبت کرے، اور اگر ان دونوں چیزوں میں سے کسی پر بالکل عمل نہ کرے یعنی پانی کو چھوئے بغیر صحبت کرے تو یہ بھی جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا معاودة أهله قبل اغتساله إلا إذا احتلم لم يأت أهله. قال الحلبي: ظاهر الأحاديث إنما يفيد الندب لا نفي الجواز المفاد من كلامه."
(كتاب الطهارة، سنن الوضوء، ج:1، ص:175، ط:ايج ايم سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"و عفا الشارع عن قدر درهم وإن کره تحریمًا فیجب غسله و ما دونه تنزیهًا فیسنّ و فوقه مبطل فیفرض."
(كتاب الطهارة،باب الأنجاس،ج:1،ص:308،ط:دارالفکر بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"و إذا أصاب طرف الإحلیل من البول أکثر من الدرهم یجب غسله هو الصحیح."
(كتاب الطهارة،باب الأنجاس،ج:1،ص:550،ط:دارالفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401101854
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن