بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استخارہ و استشارہ کا حکم


سوال

استخارہ اور استخارہ اور استشارہ کے بارے میں سوال ہے:

1: کسی کام میں استخارہ اور استشارہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟

2: ایک کیا ایک ہی معاملہ ہو تو اس میں استخارہ اور استشارہ دونوں کا کرنا جائزہے؟

3: ایک ہی کام میں استخارہ اور استشارہ کرنا ہو تو مقدم کس کو کریں گے؟

جواب

1: از روئے شرع استخارہ و استشارہ دونوں ہی مسنون اعمال ہیں اور قرآن و سنت میں دونوں کی ترغیب آئی ہے۔

2 ، 3: ایک ہی معاملہ میں استخارہ اور استشارہ دونوں کا کرنا جائز ہےاور ان میں سے کسی کو بھی مقدم کرنا درست ہے، البتہ مستحب یہ ہے کہ کسی اہم دینی یا دنیوی کام کے سلسلے میں پہلے صالح اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کیا جائے، پھر استخارہ کیا جائے۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ﴾

ترجمہ: ’’اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجئے‘‘۔(بیان القرآن)

(سورة آل عمران، جزء آیت: 159)

وفیہ أیضاً:

﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ﴾

ترجمہ: ’’اور  ان کا ہر کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے‘‘۔ (بیان القرآن)

(سورة الشوری، جزء آیت: 38)

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد الرحمن بن أبي الموالي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌يعلمنا ‌الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن".

ترجمہ: ’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہم (صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالی عنہم) کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے‘‘۔

(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاۃ الاستخارة، ج:2، ص:345، رقم الحدیث:480، ط:مصطفى البابي الحلبي مصر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌سعادة ‌ابن آدم رضاه بما قضى الله له ومن شقاوة ابن آدم تركه استخارة الله ومن شقاوة ابن آدم سخطه بما قضى الله له» . رواه أحمد والترمذي وقال: هذا حديث غريب".

(كتاب الآداب، باب التوکل و الصبر، ج:3، ص:1459، رقم الحدیث:5303، ط:المكتب الاسلامي بيروت)

 مرقاة المفاتیح میں ہے:

"ثم المستحب دعاء الإستخارة بعد تحقق المشاورة في الأمر المهم من الأمور الدينية والدنيوية وأقله أن يقول اللهم خر لي واختر لي ولا تكلني إلى اختياري والأكمل أن يصلي ركعتين من غير الفريضة ثم يدعو بالدعاء المشهور في السنة على ما قدمناه في کتاب الصلاة".

(باب التوكل و الصبر، ج:8، ص:3326، الرقم:5303، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں