اسرائیلی روایتوں کو قبول کرنے اور بیان کرنے کا حکم کیا ہے؟
اسرائیلی روایات سے مراد وہ روایات ہیں جو بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) کی کتابوں سے نقل کی گئی ہوں۔
البتہ ہمارے عرف میں جس واقعے کا ذکر یا اس کے کسی حصے کا ذکر قرآنِ مجید میں یا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہو اسے اسرائیلی روایت نہیں کہاجاتا، بلکہ وہ ہمارے دینی مآخذ شمار ہوتے ہیں۔ جب کہ وہ روایات جن کا ذکر بعینہ یا ان کے کسی حصے کا ذکر قرآنِ مجید میں یا رسول اللہ ﷺ سے منقول نہ ہو، انہیں اسرائیلی روایت کہا جاتاہے۔
چوں کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں میں تحریف کرچکے ہیں؛ اس لیے اُن روایات پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے جو صرف ان کی کتابوں میں موجود ہوں، چنانچہ ان روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا، اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو بیان کرنے کی گنجائش ہے، اور جن روایات میں ایسی باتیں ہوں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں تو ہم ان کی تکذیب کریں گے، اور ایسی روایات کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
تفسير ابن كثير ط العلمية (1/ 10):
"ولهذا غالب ما يرويه إسماعيل بن عبد الرحمن السدي الكبير في تفسيره عن هذين الرجلين ابن مسعود وابن عباس، ولكن في بعض الأحيان ينقل عنهم ما يحكونه من أقاويل أهل الكتاب التي أباحها رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث قال: «بلغوا عني ولو آيةً، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدًا فليتبوأ مقعده من النار». رواه البخاري عن عبد الله بن عمرو، لهذا كان عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قد أصاب يوم اليرموك زاملتين من كتب أهل الكتاب، فكان يحدث منهما بما فهمه من هذا الحديث من الإذن في ذلك.
ولكن هذه الأحاديث الإسرائيلية تذكر للاستشهاد لا للاعتضاد؛ فإنها على ثلاثة أقسام: أحدها ما علمنا صحته مما بأيدينا مما يشهد له بالصدق، فذاك صحيح. والثاني ما علمنا كذبه بما عندنا مما يخالفه. والثالث ما هو مسكوت عنه لا من هذا القبيل ولا من هذا القبيل، فلانؤمن به ولانكذبه، ويجوز حكايته لما تقدم، وغالب ذلك مما لا فائدة فيه تعود إلى أمر ديني. ولهذا يختلف علماء أهل الكتاب في هذا كثيرًا."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111200333
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن