بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمانوں پر ظلم کرنے والے ممالک کی مصنوعات خرید کر ضائع کرنے کا حکم


سوال

 بائیکاٹ والی   چیزیں اگر بہت پہلے سے خریدی گئی  تھیں ، تو کیا  اب  انہیں  استعمال کرسکتے ہیں؟ 

جواب

وہ  ممالک یا افراد  جو  مختلف مواقع  پر مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے رہتے ہیں، ان کی مصنوعات استعمال کر کے ان کو فائدہ پہنچانا یا ان کی مصنوعات خرید  کرکے ان کی معیشت کو فائدہ پہنچانا ایمانی غیرت کے خلاف ہے؛  اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے  ممالک اور  ریاستوں کو فائدہ پہنچانے  سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔البتہ جو اشیاء پہلے  سے خریدی ہوئ ہیں ان کو ضائع کرنا  یا اسرائیلی مصنوعات خرید کر اسے ضائع کرنے والی بات عقلاً اور شرعاً دونوں طرح سے درست نہیں ہے، اس لیے کہ خریدنے کی صورت میں تو انہیں مالی فائدہ ہوگیا، اور اسرائیلیوں کے لیے یہی کافی ہے، اور اب اگر بائیکاٹ کے نام پر اس حلال اور پاک شئے کو ضائع کیا جائے گا تو یہ اسراف اور فضول خرچی میں شامل ہوگا۔ البتہ اگر کسی مسلمان بیوپاری اور دوکاندار نے اسرائیلی یا اس کے ہمنوا ممالک کی  مصنوعات کو پہلے ہی خرید کر رکھ لیا ہے تو اب وہ اتنا اسٹاک فروخت کردے اور آئندہ مزید نہ خریدے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ. "(المائدہ، الآیۃ: 2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو "(از بیان القرآن)

تفسیر جلالین  میں ہے:

"قال الله تعالی: وَلَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ الآیة، وفي الجلالین: ولا ترکنوا تمیلوا إلی الذین ظلموا بموادة أو مداهنة أو رضي بأعمالهم فتمسّکم تصبکم النار."

‌‌(سورة هود (11) : آية، 113، ص:301، ط: دار الحديث - القاهرة)

تفسیر کشاف میں ہے:

"وفي الکشّاف: والنهى متناول ‌للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومد العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم."

‌‌(سورة هود (11) : آية، 113، ج:2، ص:433، ط: دار الكتاب العربي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره) تحريمًا (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحًا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب، زيلعي.

قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريمًا وإلا فتنزيها نهر."

(باب البغاة، ج: 4، ص: 268، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں