بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کا حکم


سوال

اس وقت یہودیوں اور ان کے حواریوں کے ہاتھوں غزہ میں بچوں، بوڑھوں، نہتے مردوں اور خواتین سمیت فلسطینی مسلمانوں کا قتلِ عام جاری ہے، غزہ کے چپے چپے پر لاکھوں ٹن بارود برسایا جا چکا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، عالمی سطح پر کئی یہودی ادارے اور کمپنیاں ان قاتل افواج کو غذائی، مالی اور دوسری امداد فراہم کر رہی ہیں، ان کئی کمپنیوں کی پروڈکٹس مسلمان ملکوں میں سرِعام خریدی اور فروخت کی جا رہی ہیں،  جن کے تجارتی منافع میں یہ اسرائیلی کمپنیاں بھی حصہ دار ہوتی ہیں، منافع کی رقم بالآخر فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام اور اسرائیل کی مدد اور استحکام کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس صورتِ حال میں درج ذیل معاملات پر فتوے کی درخواست ہے:

1۔کیا اسرائیلی پروڈکٹس کا بائیکاٹ فرض ہے؟

2۔کیا یہ حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ وہ اسرائیلی پروڈکٹ کی خرید و فروخت پر پابندی لگائے؟

کیا عام آدمی کے لیے اسرائیلی پروڈکٹس کی خرید و فروخت جائز ہے؟

ضروری نوٹ: یہ سوالات یہود و کفار سے عام حالات میں لین دین یا تجارت سے متعلق نہیں ہیں،  بلکہ بیان شدہ مخصوص صورتِ حال کے بارے میں ہیں اور نہ ہی یہ سوال زندگی بچانے یعنی لائف سیونگ والی پروڈکٹس کے بارے میں ہیں۔

جواب

1/ 3۔واضح رہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ایک خطے کے مسلمان اگر حالتِ جنگ میں ہوں اور ظالم قوتوں کے ظلم کا شکار ہوں تو تمام مسلمانوں کی ایمانی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ ان مظلوم افراد کے حق میں کھڑے ہوں، ان کی امداد کریں، ظلم سے نکالنے میں ہر ممکن کوشش کریں، اور ظالم قوتوں کی کمر توڑنے کے لیے یک جان ہو کر تمام تر اقدامات سے گریز نہ کریں، سوال میں بیان کردہ صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل اور مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کرنے والے ہر ملک سے اقتصادی اور معاشی سطح پر بائیکاٹ کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے، اس وقت ہر مسلمان کی غیرتِ ایمانی کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور ظالم صہیونی قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے پرزور اقدامات کرے، خاص طور پر ان تمام معاشی راستوں کو بند کردیں جن کے ذریعے ظالم قوت حاصل کر کے ہمارے مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔

2۔موجودہ صورتِ حال میں تمام مسلم حکمرانوں کا ایمان ان سےاس بات کا تقاضا کرتا ہے  کہ وہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں، اسلامی اخوت اور حمیت کو سامنے رکھتے ہوئے غزہ کے مسلمانوں کو اس مشکل سے نکالنے میں متحد ہو کر تمام ضروری اقدامات کریں، ظالموں کے ظلم کے خاتمے کے لیے تمام تدبیریں اختیار کریں، لہٰذا تمام اسلامی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان تمام ذرائع کے بائیکاٹ کے احکام جاری اور نافذ کریں  جن کے ذریعے اسرائیلی قوت حاصل کر کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے میں مصروف ہیں۔

شرح سنن ابی داؤد لابن رسلان میں ہے:

"وكما أنه لا يجوز حمل السلاح إلى أرض العدو،  لا يجوز أن يباع العدو شيئا مما يستعينون به في حروبهم من كراع أو سلاح،  ولا شيئا مما يرهبون به على المسلمين في قتالهم مثل الرايات وما يلبسون في حروبهم." 

(كتاب الجهاد، باب في حمل السلاح إلى أرض العدو، ج:١٢، ص:١٢١، رقم:٢٧٨٦، ط:دارالفلاح)

الجامع لاحکام القرآن للقرطبی میں ہے:

"روى الأئمة عن أبي سعيد الخدري قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان). قال العلماء: الأمر بالمعروف باليد على الأمراء، وباللسان على العلماء، وبالقلب على الضعفاء، يعني عوام الناس."

(الآية:٢٢، سورة آل عمران، ج:٤، ص:٤٩، ط:دار الكتب المصرية)

احکام القرآن لابن العربی میں ہے:

"ثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان».

وفي هذا الحديث من غريب الفقه أن النبي - صلى الله عليه وسلم - بدأ في البيان بالأخير في الفعل، وهو تغيير المنكر باليد، وإنما يبدأ باللسان والبيان، فإن لم يكن فباليد. يعني أن يحول بين المنكر وبين متعاطيه بنزعه وبجذبه منه، فإن لم يقدر إلا بمقاتلة وسلاح فليتركه، وذلك إنما هو إلى السلطان."

(الآية:١٧، ج:١، ص:٣٨٣، ط:دارالكتب العلمية)

فتح القوی المتین میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من رأى منكم منكرا فليغيره بيده،  فإن لم يستطع فبلسانه،  فإن لم يستطع فبقلبه،  وذلك أضعف الإيمان. رواه مسلم.

هذا الحديث مشتمل على درجات إنكار المنكر وأن من قدر على التغيير باليد تعين عليه ذلك، وهذا يكون من السلطان ونوابه في الولايات العامة."

(الحديث الرابع والثلاثون، ص:١١٦، ط:دارابن القيم)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا اور ان کو نفع پہنچانا جائز نہیں ہے، یہودی اسلام کے خلاف آج کل محارب ہیں، ان کے ارادے یہ ہیں کہ حجازِ مقدس بالخصوص مدینہ طیبہ زادہا اللہ شرفاً اور اس کے گرد و نواح کو فتح کر لیں، ان کے زعم میں یہ دراصل یہودی علاقے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہودِ مدینہ، بنی نظیر،  بنی قینقاع، یہود خیبر ان علاقوں کے مالک تھے، اس حالت میں کوئی ایسی چیز بازار سے نہ خریدی جائے جس سے یہودی کی مالی پوزیشن مستحکم ہو، قرآن کریم میں ہے:ولا ينالون من عدو نيلا إلا كتب لهم به عمل صالح...الآية، لا نکرہ ہے، تحت النفی مفید استغراق ہے،  جس کا حاصل یہ ہے کہ دشمن کو کسی طرح کوئی بھی نقصان پہنچانا عملِ صالح ہے،  فقہاء کی عبارات سے بھی اسی طرح کے حوالہ جات نقل کیے جا سکتے ہیں کہ مسلمانِ عالم کو اجتماعی طور پر یہودیوں کے اموال تجارت کا بائیکاٹ کرنا لازم ہے ۔"

(باب الحظر والاباحۃ، عنوان:یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا، ج:11، ص:204، ط:جمعیت پبلیکیشنز)

جواہر الفقہ میں ہے:

"بلا ضرورت مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کے ساتھ معاملات نہ کیے جائیں...  کفار و مشرکین کے ساتھ اس طرح معاملات نہ کیے جائیں جس سے مسلمانوں کی ذلت ظاہر ہو،  روایاتِ حدیث و فقہ کے دیکھنے اور حالاتِ موجودہ پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوا کہ اس وقت باوجود اباحت فی نفسہا کے مسلمانوں کے لیے اپنی دکانیں چھوڑ کر غیر مسلموں سے سامان خریدنا ہرگز جائز نہیں۔"

(غیر مسلموں کے ساتھ معاملات، ج:5، ص:355/ 362، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں