بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ


سوال

دور حاضر میں یہ جو فلسطین اور اسرائیل کی جنگ لگی ہوئی ہے اس میں ہر مسلمان کا دل افسردہ ہے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے،لیکن اس تمام صورتحال میں کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کریں جن میں بہت سی چیزیں شامل ہیں جیسے کوکا کولا، پیپسی وغیرہ اور بہت سی فوڈ چینز وغیرہ اور ان میں سے بہت سی ایسی چیزیں شامل ہیں جو اسرائیل تو نہیں بناتا البتہ یہودیوں کی کمپنیاں بہت سی بناتی ہیں جیسے بہت سی کولڈ ڈرنک کی کمپنیز امریکہ میں ہیں اور ایسی ہی کئی دیگر کمپنیاں ہیں جو اسرائیل تو نہیں بناتا لیکن یہودی وہ چیزیں بنا رہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں وہ چیزیں یہودی نہیں بناتے بلکہ کمپنی کا نام وہ ہے لیکن وہ ہمارے یہاں کے مسلمان بناتے ہیں تو کیا ہم وہ چیزیں استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اگر ہم ان تمام چیزوں کا بائیکاٹ کر دیں تو اس سے ہمارے ملک کو بھی نقصان ہوگا اور ہماری روز مرہ کی تقریباً ہر چیز ہی رک جائے گی ۔ برائے مہربانی میرے اس سوال کا جواب عنایت فرما دیں ۔ جزاک اللّٰہ خیرا

جواب

صورتِ مسئولہ میں اسرائیلی و دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن یہودیوں کو ہماری وجہ سے کوئی فائدہ نہ پہنچے، اور مذکورہ کمپنیاں جو مسلم ممالک میں ہے اور اشیاء بھی خودمسلمان بناتے ہیں، یہ کمپنیاں ان کا نام استعمال کرتی ہے ، جس کی وجہ سے منافع کا خاطر خواہ حصہ اسرائیل و دیگریہودی کمپنیوں(جن کا نام استعمال کرتے ہیں) کو جاتا ہے، جو کہ ان کو معاشی طور پر مضبوط کرنا اور ان کی معیشت کو فائدہ پہنچاناہے اور انہی منافع سے یہ یہودی گولہ بارود اور دیگر اسلحہ خرید کر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں، اور اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر چکے ہیں، لاکھوں بے یار و مددگا پڑے ہوئے ہیں، ان کے گھروں کو بمباری سے ختم کر کے تہس نہس کردیا ہے، اور یہ مسلمان خیموں اور کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، اسی طرح آئے دن مسلمانوں کی نسل کشی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے رہتے ہیں، لہذا ان کی مصنوعات کو خریدنا درحقیقت انہیں قوت پہنچانا ہے جو کہ نہ صرف مکروہ ہے بلکہ ایمانی غیرت کے خلاف ہے؛  اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے ممالک اور ریاستوں کو فائدہ پہنچانے  سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔

باقی سائل کا یہ کہنا کہ ہمارے ملک کے بعض مسلمان یہودی کمپنیوں کا نام استعمال کر کے چیزیں بناتے ہیں، ان چیزوں کا بائیکاٹ کرنے سے ہمارے ملک کو بھی نقصان ہوگا، یہ عذر شرعاً قابلِ اعتناءنہیں ہے، اس طرح تو تمام اسرائیلی اور یہودی کمپنیوں کی تیار کردہ مصنوعات مسلمانوں کی دوکانوں میں فروخت ہوتی ہوں تو مسلمان دوکان دار کو مالی فائدہ ہوتا ہے، اور بائیکاٹ کرنے سے دوکان دار ان اشیاء کے منافع سے محروم رہیں گے، تو پھر بھی ملکی نقصان کہہ کر بائیکاٹ کو ترک کر دیا جائے ؟ مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کا تقاضہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ یہودی کمپنیوں کا نام بھی استعمال نہ کریں جس کی بنیاد پر یہودی معیشت مضبوط ہو، بلکہ ملکی اور غیر ملکی غیر یہودی مصنوعات کو فروخت کریں۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ. "(المائدہ، الآیۃ: 2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو "(از بیان القرآن)

تفسیر جلالین  میں ہے:

"قال الله تعالی: وَلَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ الآیة، وفي الجلالین: ولا ترکنوا تمیلوا إلی الذین ظلموا بموادة أو مداهنة أو رضي بأعمالهم فتمسّکم تصبکم النار."

‌‌(سورة هود (11) : آية، 113، ص:301، ط: دار الحديث - القاهرة)

تفسیر کشاف میں ہے:

"وفي الکشّاف: والنهى متناول ‌للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومد العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم."

‌‌(سورة هود (11) : آية، 113، ج:2، ص:433، ط: دار الكتاب العربي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره) تحريمًا (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحًا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب، زيلعي.

قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريمًا وإلا فتنزيها نهر."

(باب البغاة، ج: 4، ص: 268، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504102103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں