اس وقت دنیا بھر میں بالخصوص فلسطین میں مسلمان انتہائی کرب ناک حالت سے گزر رہے ہیں،اسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری،بچوں اور عورتوں کی شہادت،اور مسجد اقصی کی توہین جیسی کھلی دہشت گردی جاری ہے،ایسے وقت میں دنیا بھر کے مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کررہے ہیں تاکہ اس ظالم ریاست کی معیشت کو نقصان پہنچاکر، اسے ظلم سے روکا جاسکے،مزید یہ کہ حال ہی میں پاکستان میں ایک اسرائیلی ڈرون بھی پکڑا گیا ہے،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل اب پاکستان کی خود مختاری کو بھی چیلنج کررہاہے،اس تمام صورت حال کے پیش نظر دارالافتاء سے رہنمائی چاہتے ہیں کہ موجودہ جنگی حالات میں اسرائیلی مصنوعات یا ان کمپنیوں کی مصنوعات جو اسرائیل کی معیشت کو سہارا دیتی ہیں،ان کی خرید و فروخت کی شرعی کیا حیثیت ہے؟
براہ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جوبات مع حوالہ تحریر فرمائیں:
1-کیا فقہی کتب کی روشنی میں حالت جنگ میں دشمن ملک جیسے اسرائیل کے ساتھ تجارت جائز ہے؟
2-اگر ایک کافر قوم مسلمانوں پر حملہ آور ہو،تو کیا اس قوم کی مصنوعات خریدنا اس کی معیشت کو مضبوط کرنا اور مسلمانوں کے خلاف مدد تصور نہیں ہوتا؟
3-کیا ایسی حالت میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ شرعًا واجب ہوجاتاہے؟
4-کیا ﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ:2) کے تحت ایسی تجارت ممنوع نہیں ہوجاتی؟
5-کیا پاکستانی حکومت و عوام کو اس بائیکاٹ مہم میں شامل ہونا شرعًا لازم ہے؟جب کہ اسرائیلی جارحیت براہ راست ہمارے خطے تک پہنچ چکی ہے۔
6-اگر پاکستانی شخص کے پاس تمام بائیکاٹ شدہ مصنوعات کا متبادل موجود ہو ،پھر بھی وہ انہیں خریدے،تو کیا وہ شریعت کی نظر میں غدار شمار ہوگا؟
1-بیان کردہ صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل اور مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کرنے والے ہر ملک سے اقتصادی اور معاشی سطح پر بائیکاٹ کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے، البتہ ان مصنوعات کی تجارت کے حلال ہونے یا حرام ہونے کا تعلق اس چیز کے اجزائے ترکیبی سےہے،لہذا اگر کسی چیز کے اجزائے ترکیبی حلال ہوں،تو اس کی تجارت بھی حلال ہے،اور اگر اجزئے ترکیبی حرام ہوں تو اس کی تجارت بھی حرام ہے۔
2-اگر کوئی کافر قوم مسلمانوں پر حملہ آور ہو،تو اس قوم کی مصنوعات خریدنا،اور اس کی معیشت کو مضبوط کرنا مسلمانوں کے خلاف بالواسطہ مدد ہے،لہذا مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کی مدد ومعاونت کریں،نہ کہ کفار کی معیشت کو مضبوط کرکے ان کو مسلمانوں کے خلاف ظلم کرنے کا راستہ ہموار کریں۔
3-مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اسرائیلی مصنوعات کابائیکاٹ کریں،اور اپنی وسعت کے بقدر ظالم کو ظلم سے روکنےمیں اپنا کردار ادا کریں۔
4- ﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ:2) آیت مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے کہ "گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی معاونت نہ کرو"۔ اس آیت کے تحت ایسی تجارت بھی داخل ہے جس کے منافع سے اہل باطل مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ،اور انہیں ہر طرح کی اذیتیں دیتے ہیں ،لہذا ایسی تجارت ظالموں کے ساتھ معاونت کی وجہ سےممنوع ہے ،
5-موجودہ صورتِ حال میں تمام مسلم حکمرانوں کا ایمان ان سےاس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں، اسلامی اخوت اور حمیت کو سامنے رکھتے ہوئے غزہ کے مسلمانوں کو اس مشکل سے نکالنے میں متحد ہو کر تمام ضروری اقدامات کریں، ظالموں کے ظلم کے خاتمے کے لیے تمام تدبیریں اختیار کریں، لہٰذا تمام اسلامی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان تمام ذرائع کے بائیکاٹ کے احکام جاری اور نافذ کریں جن کے ذریعے اسرائیلی قوت حاصل کر کے مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔
6-اگر کسی شخص کے پاس بائیکاٹ کی ہوئی مصنوعات کا متبادل موجود ہو ،تو ان مصنوعات کو خریدنااخلاقی جرم شمار ہوگا،اصطلاحی غدار کا اس پر اطلاق درست نہیں۔
قرآن مجید میں ہے:
"وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ. "(المائدہ، الآية: 2)
ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو "(از بیان القرآن)
تفسیر جلالین میں ہے:
"قال الله تعالی: وَلَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ الآیة، وفي الجلالین: ولا ترکنوا تمیلوا إلی الذین ظلموا بموادة أو مداهنة أو رضي بأعمالهم فتمسّکم تصبکم النار."
(سورة هود،الآية:113، ص:301، ط: دار الحديث)
تفسیر کشاف میں ہے:
"والنهى متناول للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومد العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم."
(سورة هود، الآية:113،ج:2،ص:433، ط: دار الكتاب العربي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويكره) تحريمًا (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحًا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب، زيلعي.
قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريمًا وإلا فتنزيها نهر."
(باب البغاة، ج: 4، ص: 268، ط: سعيد)
فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:
"یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا اور ان کو نفع پہنچانا جائز نہیں ہے، یہودی اسلام کے خلاف آج کل محارب ہیں، ان کے ارادے یہ ہیں کہ حجازِ مقدس بالخصوص مدینہ طیبہ زادہا اللہ شرفاً اور اس کے گرد و نواح کو فتح کر لیں، ان کے زعم میں یہ دراصل یہودی علاقے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہودِ مدینہ، بنی نظیر، بنی قینقاع، یہود خیبر ان علاقوں کے مالک تھے، اس حالت میں کوئی ایسی چیز بازار سے نہ خریدی جائے جس سے یہودی کی مالی پوزیشن مستحکم ہو، قرآن کریم میں ہے:ولا ينالون من عدو نيلا إلا كتب لهم به عمل صالح...الآية، لا نکرہ ہے، تحت النفی مفید استغراق ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دشمن کو کسی طرح کوئی بھی نقصان پہنچانا عملِ صالح ہے، فقہاء کی عبارات سے بھی اسی طرح کے حوالہ جات نقل کیے جا سکتے ہیں کہ مسلمانِ عالم کو اجتماعی طور پر یہودیوں کے اموال تجارت کا بائیکاٹ کرنا لازم ہے ۔"
(باب الحظر والاباحۃ، عنوان:یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا، ج:11، ص:204، ط:جمعیت پبلیکیشنز)
جواہر الفقہ میں ہے:
"بلا ضرورت مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کے ساتھ معاملات نہ کیے جائیں... کفار و مشرکین کے ساتھ اس طرح معاملات نہ کیے جائیں جس سے مسلمانوں کی ذلت ظاہر ہو، روایاتِ حدیث و فقہ کے دیکھنے اور حالاتِ موجودہ پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوا کہ اس وقت باوجود اباحت فی نفسہا کے مسلمانوں کے لیے اپنی دکانیں چھوڑ کر غیر مسلموں سے سامان خریدنا ہرگز جائز نہیں۔"
(غیر مسلموں کے ساتھ معاملات، ج:5، ص:355/ 362، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم۔
فتوی نمبر : 144611101786
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن