بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسرائیلی مصنوعات خریدنا


سوال

آج کل لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے کہ ان کا کچھ منافع اسرائیل کی طرف جاتا ہے۔ اس کی کیا حیثیت ہے شرعی طور پر؟ اگر ان کمپنیوں میں سے کسی کا پراڈکٹ خریدا تو کیا ہمیں گناہ ملے گا؟

جواب

اسرائیل  فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے اور ان کی زمینوں  پر قابض ہے اور اپنے تسلط میں اضافہ کی کوشش کر رہا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ ہے اس پر مکمل قبضہ اور تسلط کا مذموم ارادہ رکھتا ہے تو ایسے حالات میں عالم اسلام کا دینی، اخلاقی اور انسانی  فریضہ ہے کہ وہ  اپنی طاقت اور قدرت کے بقدر  اہل فلسطین کےسا تھ ہر طرح کا مالی اور جانی تعاون اور تناصر کریں اور اسرائیل کی ہر قسم (عسکری، مالی ، سیاسی) کی اور ہر سطح پر مخالفت کریں۔  اہل فلسطین کے ساتھ  تعاون و تناصر اور اسرائیل کی مخالفت کا ایک ادنی ، آسان اور مؤثر طریقہ اسرائیلی مصنوعات اور ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے جو اسرائیل کی ان مذموم ارادہ میں معاون ہیں؛ لہذا مسلمانوں  کو چاہیے کہ  اس طرح  کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور اس بائیکاٹ کو حمیۃ اسلامی اور غیرت اسلامی کا تقاضا سمجھیں، تاہم اگر کسی نے ان مصنوعات کو خرید کر استعمال کرلیا ہے تو  وہ  گناہ گار نہ ہوگا ۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد الواحد إذا ‌اشتكي عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى. متفق عليه

(وعن النعمان بن بشير) : مر ذكرهما رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ترى المؤمنين) أي: الكاملين (في تراحمهم) أي: في رحم بعضهم بعضا بأخوة الإيمان لا بسبب رحم ونحوه (وتوادهم) بتشديد الدال المكسورة أي: تواصلهم الجالب للمحبة كالتزاور والتهادي (وتعاطفهم) أي: بإعانة بعضهم بعضا (كمثل الجسد) أي: جنسه (الواحد) : المشتمل على أنواع الأعضاء (إذا ‌اشتكى) أي: الجسد (عضوا) لعدم اعتدال حال مزاجه، ونصبه على التمييز، والمعنى: إذا تألم الجسد من جهة ذلك العضو، وفي نسخة إذا ‌اشتكي عضو بالرفع أي: إذا تألم عضو من أعضاء جسده (تداعى له) أي: ذلك العضو (سائر الجسد) أي: باقي أعضائه (بالسهر) بفتحتين أي: عدم الرقاد (والحمى) أي: بالحرارة والتكسر والضعف، ليتوافق الكل في العسر كما كانوا في حال الصحة متوافقين في اليسر، ثم أصل التداعي أن يدعو بعضهم بعضا ليتفقوا على فعل شيء، فالمعنى: أنه كما أن عند تألم بعض أعضاء الجسد يسري ذلك إلى كله، كذلك المؤمنون كنفس واحدة إذا أصاب واحدا منهم مصيبة ينبغي أن يغتم جميعهم ويهتموا بإزالتها عنه، وفي النهاية: كان بعضه دعا بعضا، ومنه قولهم: تداعت الحيطان أي: تساقطت أو كادت، ووجه الشبه هو التوافق في المشقة والراحة والنفع والضر. (متفق عليه)."

(کتاب الآداب، باب الشفقۃ، ج نمبر ۷، ص نمبر ۳۱۰۲، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں