بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسرائیلی کمپنی کے ذریعہ گرافک ڈیزائننگ کے کام کا حصول


سوال

 عرض یہ ہے کہ میں گرافک ڈیزائنر ہوں، اور آن لائن فری لانسنگ ویب سائٹس (Fiverr.com/upwork.com/ freelancer.com) کے ذریعے دنیا بھر سے مختلف لوگوں کے ڈیزائننگ وغیرہ کے پروجیکٹس پر کام کر کے آمدنی حاصل کرتا ہوں۔ فری لانسنگ ویب سائٹس ڈیلر کی طرح کام کرتی ہیں یعنی خریدار اور بیچنے والے کے درمیان باہمی تعلق قائم کرنے اور باحفاظت مالی معاملات طے کروانے کا کام کرتی ہے، جس کے عوض ویب سائٹ یا کمپنی پروجیکٹ کی مالیت کا بیس فیصد حصہ لیتی ہے۔ Upwork.com امریکی کمپنی ہے، freelancer.com آسٹریلین کمپنی ہے ، جب کہ fiverr.com اسرائیلی کمپنی ہے۔ لہذا سوال صرف یہ ہے کہ( اسرائیلی کمپنی) ہونے کی وجہ سے fiverr.comکے ذریعے کام کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

صورت مسئولہ میں  مذکورہ اسرائیلی کمپنی کے ذریعہ کا کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر اس بات کا یقین اور غالب گمان ہو کہ یہ کمپنی اپنی آمدنی کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتی ہے تو پھر اس کمپنی کے ساتھ کا نہ کیا جائے ؛ کیوں کہ اس صورت میں  سائل   اس کمپنی کے آمدنی میں معاون بن جائے گا جو بالآخر مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگی۔ اور اگر اس بات کا غالب گمان یا یقین نہیں ہے تو پھر اس کمپنی کے ذریعہ کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ گرافک ذیزائنگ میں کسی ذی روح کی تصویر بنانا اور اس کے بدلہ اجرت وصول کرنا جائز نہیں ہے؛  لہذا  سائل اس بات کا اہتمام کرے کہ ایسے پراجیکٹس میں ہی کام کرے جہاں تصویر سازی کا عمل نہ ہو،  ورنہ سائل کی حاصل کی ہوئی اجرت حلال نہیں رہے گی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"لا بأس بحمل الثياب والمتاع والطعام، ونحو ذلك إليهم؛ لانعدام معنى الإمداد، والإعانة، وعلى ذلك جرت العادة من تجار الأعصار، أنهم يدخلون دار الحرب للتجارة من غير ظهور الرد والإنكار عليهم، إلا أن الترك أفضل؛ لأنهم يستخفون بالمسلمين، ويدعونهم إلى ما هم عليه، فكان الكف والإمساك عن الدخول من باب صيانة النفس عن الهوان، والدين عن الزوال، فكان أولى."

(کتاب السیر،فصل في بيان ما يكره حمله إلى دار الحرب وما لا يكره ج نمبر ۷ ص نمبر ۱۰۲،دار الکتب العلمیۃ)

الدر المختار میں ہے:

"(ولم نبع) في الزيلعي يحرم أن نبيع (منهم ما فيه تقويتهم على الحرب) كحديد وعبيد وخيل (ولا نحمله إليهم ولو بعد صلح) ؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - نهى عن ذلك وأمر بالميرة وهي الطعام والقماش فجاز استحسانًا."

(رد المحتار،کتاب الجہاد ج نمبر ۴ ص نمبر ۱۳۴)    

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"وفي «العيون» : لو استأجر رجلًا ينحت له أصنامًا أو يزخرف له بيتًا بتماثيل و الأصباغ من رب البيت فلا أجر؛ لأن فعله معصية، وكذلك لو استأجر نائحةً أو مغنيةً فلا أجر لها؛ لأن فعلها معصية."

(کتاب الاجارات فصل خامس عشر ج نمبر ۷ ص نمبر ۴۸۱،دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں