بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل


سوال

 حضراتِ مفتیانِ کرام سے درجِ ذَیل مسئلے میں راہ نمائی کی درخواست ہے۔ در اصل ایک خاتون کو پانچ مہینے کا حمل ہے، مگر متعدد ماہر ڈاکٹروں کی طبی جانچ سے معلوم ہوا ہے کہ خاتون کا حمل بڑی حد تک ناقص الخلقت ہے، مثلاً اس کے دل کا ایک چوتھائی حصّہ مفقود ہے، بایاں ہاتھ کُہنی سے موجود نہیں ہے۔ اسی طرح اس کا بایاں پیر اس قدر تیڑھا ہے کہ پِنڈلی سے مل گیا ہے، اس کا دماغ بھی اِعتدال پر نہیں ہے۔ نیز ایک گردہ تقریباً ختم ہو چکا ہے، حتیٰ کہ بچے کا پیٹ بھی نظر نہیں آ رہا ہے، اس کے علاوہ بہت سی خرابیاں ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچے کی کسی بھی وقت موت واقع ہو سکتی ہے اور اگر زندہ رہ گیا تو مذکورہ تفصیلات کے مطابق وہ بالکل ناقص ہوگا، یعنی اس کے بعض اعضائے جسمانی ہی موجود نہیں ہوں گے۔ میں نے فتاویٰ بینات اور دارالعلوم دیوبند کے بے شمار فتاویٰ جات دیکھ ڈالے، مگر موجودہ صورتِ حال سے متعلق کوئی حکم مجھے نہ ملا۔ الحمدللہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ چار ماہ کے بعد حمل کو ساقط کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں روح پھونکی جا چکی ہوتی ہے، مگر میری بیان کردہ صورتِ حال انتہائی پیچیدہ ہے اور آپ حضرات کی از سرِ نو توجہ کی متقاضی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید نقصان کا اندیشہ ہو  اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کردے  تو ایسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی مشین کی اسکیننگ کے ذریعہ  ماں کے پیٹ میں موجود بچے کا  ناقص الخلقت ہونا، اس کے دل کا ایک چوتھائی حصّے کا  مفقود ہونا، بایاں ہاتھ کُہنی سے موجود نہ ہونا، اس کا بایاں پیر اس قدر ٹیڑھا ہونا کہ پِنڈلی سے مل جانا، دماغ کا  اِعتدال پر نہ ہونا، گردے کا  تقریباً ختم ہو جانا،حتیٰ کہ بچے کا پیٹ بھی نظر  نہ آنا،یا ان سب صورتوں میں  بچے کی کسی بیماری اور اس سے پیدا ہونے والے خطرہ  کا علم یقینی نہیں، بل کہ گمان کے درجے میں ہوتا ہے،جوکہ اکثر غلط بھی ثابت ہوتا ہے اور اگربالفرض  یقینی بھی ہو تو خالقِ کائنات باقی کسی بھی دن اس مرض سے نجات دینے پر قدرت رکھتا ہے، اس صورت میں حمل کااسقاط کراوانااللہ کی قدرت پریقین نہ ہونے کی دلیل بھی ہے، اور اگربالفرض آخر وقت تک بھی بچہ مذکورہ مرض میں مبتلا رہے، پھر بھی اس کا اسقاط جائز نہیں؛ کیوں کہ بیمار انسان کو جان سے  مارنا جائز نہیں۔

فتاویٰ ھندیہ میں ہے:

"‌وكذلك ‌المرأة ‌يسعها ‌أن ‌تعالج لإسقاط الحبل ما لم يستبن شيء من خلقه وذلك ما لم يتم له مائة وعشرون يوما ثم إذا عزل وظهر بها حبل هل يجوز نفيه؟ قالوا إن لم يعد إلى وطئها أو عاد بعد البول ولم ينزل جاز له نفيه وإلا فلا كذا في التبيين."

( كتاب النكاح، الباب التاسع في نكاح الرقيق، فصول في خيار العتق، ج:1، ص:335، ط: دار الفکر- بیروت)

و فیہ ایضاً:

"وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان.

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي.

وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية."

(کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، ج:5، ص:356، ط: دار الفکر-بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں