بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل کا گناہ اور اس کا کفارہ


سوال

اگر کوئی شخص رزق کے خوف سے اسقاطِ  حمل کر بیٹھتا ہے اور بعد میں اسے غلطی کا احساس ہوتا ہے تو اس کا کفارہ کیا ہو گا؟

جواب

واضح رہے  کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں بلکہ تمام كي تمام مخلوقات کے رزق کا ذمہ لیا ہے، اور تمام مخلوقات کو رزق کے پہنچانے کا وعدہ کیا ہے،چنانچہ  اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا" [هود: 6] 

ترجمہ: "اور كوئي جاندار روئے زمين پر چلنے والا نہيں كہ اس كي روزی الله كے ذمہ نہ ہو"۔ (بیان القرآن)

زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنی اولاد کو رزق کے خوف کی وجہ سے قتل کردیا کرتے تھے،اور بعض اوقات زمین میں زندہ درگور بھی کردیا کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس عمل پرتنبیہ فرمائی اور قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: 

"وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا"[الإسراء: 31] 

ترجمہ: "اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشہ سے قتل مت کرو ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بے شک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے"۔(بیان القرآن)

لہٰذا  رزق کے خوف کی وجہ سے اسقاط حمل بھی ناجائز اور حرام ہے، اور اگر حمل ٹھہر نے کے چار ماہ کے بعد ہو تو قتل اولاد کے زمرے میں آئے گا کیونکہ چار ماہ کے بعد بچہ کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے، اور اگر اسقاط حمل بیوی نے شوہر کی اجازت کے بغیر کیا ہو تو اس صورت میں بیوی کے عاقلہ پر غرہ (یعنی ایک غلام کی قیمت يعنی پانچ سو درہم)لازم ہوگا،اور مستحب یہ ہے کہ عورت کفارہ بھی ادا کرے،(یعنی ساٹھ روزے مسلسل رکھے) ، اور اگر شوہر کی اجازت سے اسقاط حمل کیا ہے تو اس صورت میں غرہ لازم نہیں ہوگا۔

روح المعانی  میں ہے:

"وقد أخرج البزار والحاكم في الكنى والبيهقي في سننه عن عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه أنه قال: جاء قيس بن عاصم التميمي إلى رسول الله صلّى الله عليه وسلم فقال: ‌إني ‌وأدت ثمان بنات لي في الجاهلية، فقال النبي صلّى الله عليه وسلم: «أعتق عن كل واحدة رقبة» قال: إني صاحب إبل قال:«فاهد عن كل واحدة بدنة». وكان الأمر للندب لا للوجوب لتوقف صحة التوبة عليه فإن الإسلام يجب ما قبله من مثل ذلك وفيه تعظيم أمر الوأد."

(ج:15، ص:257، دار لکتب العلمیۃ)

رد المحتار میں ہے:

"(ولا كفارة في الجنين) ‌عندنا ‌وجوبا بل ندبا زيلعي."

(كتاب الديات، ج:6، ص:590، ط:سعيد)

وفیه أيضاّ:

"(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: ‌بقي ‌هل ‌يباح ‌الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما."

(كتاب النكاح ، ج:3، ص:176، ط: سعيد)

وفيه أيضاّ:

"ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل."

(كتاب النكاح ، ج:3، ص:176، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمرأة إذا ضربت بطن نفسها، أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدة، أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج، وإن فعلت بإذنه لا يجب شيء كذا في الكافي."

(كتاب الجنايات، ج:6، ص:35، ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں