بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل اور کمرہ میں کیمرہ لگانے کا حکم


سوال

میری شادی 31 جولائی 2021  ء میں ہوئی ،اور شادی کے کچھ ماہ بعد مجھے اور میری بیوی کو اولاد کی خوش خبری سنائی ، پریگنینسی  ،ہسپتال  ،  الٹراساؤنڈ اور علاج معالجے کے حوالے سے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، لیڈی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق چھ ہفتوں  کی پریگنینسی انجیکشن کا کورس مکمل ہوا، ساڑھے چار ماہ مکمل ہو چکے تھے ، پھر ایک دن میری غیر موجودگی میں میری سسرال سے کھانے میں کچھ ملا کر میری بیوی کو دیا گیا ، اس کے کھانے پریگنینسی ختم ہوگئی، اس وقت حالات کے مطابق میری بیوی مجھ سے  دور اور اپنے میکے سے قریب تھی ،وجہ یہ تھی کہ ایک بار میں نے خود اپنی بیوی کو فون پر باتیں کرتے ہوۓ سنا، میں گھر کا سوداسلف لے کر گھر پہنچا تو وہ فون پر اپنے گھر والوں سے میری ، میری والدہ اور میری بہنوں کی برائیاں کرنے میں مصروف تھی ،جوکہ معمول ہے،پریگنینسی ختم ہونے کے بعد میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ اب وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے، وہ اپنے میکے چلی گئی،میں اپنی والدہ کے ساتھ اس کو لینے گیا تو اس نے انکار کردیا،میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا ، ایک طرف اولاد کے کھو جانے کادکھ اور دوسری طرف میری بیوی کی مجھ سے بے اعتنائی ،حالاں کہ میں نے اپنی بیوی کو بہت محبت دی ، اس کی تمام ضروریات اچھی طرح پوری کررہا تھا،پھر دو ماہ بعد میری بیوی نے فون کیا کہ مجھے آکر لے جاؤ ، میں لے کر آگیا ، اس کے آنے کے بعد کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی ۔

میں نے اپنے بیڈ روم میں ایک کیمرہ نصب کیا  ہے ، سیفٹی اور آئندہ نقصانات سے بچنے کے لیے اس کیمرہ کا علم میری بیوی کوبھی ہے ، بہر حال زندگی جیسے تیسے گزررہی تھی ، ہم میاں بیوی کی آپس کی بات پر وہ اپنے میکے والوں کو بلاکر میری تذلیل کرتی رہی، پھر ایک دن میری بیوی نے خود اپنے ہاتھوں سے وہ کیمرہ بند کردیا ، اور اپنے میکے والوں کو بلا کر کیمرہ کا اشو بنایا، جب کہ کیمرہ گزشتہ چھ ماہ سے بندہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جو کیمرہ میں نے اپنے بیڈروم میں لگایا ، کیا وہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اسقاط حمل چار ماہ کے بعد   قتل اولاد کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے  ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ چار ماہ کے بعد بچہ کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے۔ لہذا چار ماہ کے بعد کسی بھی صورت میں اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے، سسرال والے اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہیں ۔اور   بیوی کو چاہیے  کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے،  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا  اور آخرت کی بھلائی  اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے،حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اورکو سجدہ کرناجائز ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، ایک اور روایت میں ہے کہ عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھتی ہے، اور رمضان کے روزے رکھتی ہے، اوراپنے شوہر کی فرمانبرداری کرتی ہے،تو جنت میں داخل ہوجاتی ہے۔

نیزصور تِ مسئولہ میں اگر آپ نے   اپنی بیوی کی نگرانی وغیرہ کے لیے کمرہ میں کیمرہ لگایا ہے تو یہ درست نہیں ہے ،کیوں کہ  قرآن و  حدیث میں تجسس اور بدگمانی سے منع فرمایا گیا ہے، اور اگر حمل وغیرہ اور دوسرے نقصانات سے حفاظت کے لیے لگایا ہےتب  بھی درست نہیں ہے؛  کیوں کہ  کیمرہ میں نظر آنے والی تصویر بھی تصویر ہے اور جان دار کی تصویر کشی جائز نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

 " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ."(سورة:حجرات:12)

ترجمہ:"اے ایمان والوں بہت سے گمانوں سے بچا کرو،کیونکہ بعضے گمان گناہ ہوتےہیں،اور سراغ مت لگایا کرو اور کوئی کسی کی غیبت  بھی نہ کیا کرے,کیا تم میں سی کوئی اس بات کو پسند کرتا ہوکہ اپنے مرےہوۓ بھائی کا گوشت کھالےاس کو تو تم نا گوار سمجھتے ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ بڑا توبہ قبو ل کرنےوالامہربان ہے۔"(بیان القرآن)

تفسیر طبری میں ہے:

"وقوله (ولا تجسسوا) يقول: ولا يتتبع بعضكم عورة بعض، ولا يبحث عن سرائره، يبتغي بذلك الظهور على عيوبه، ولكن اقنعوا بما ظهر لكم من أمره، وبه فحمدوا أو ذموا، لا على ما لا تعلمونه من سرائره."

(سورۃحجرات، ج:22، ص:304، ط: دار الھجر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح، باب عشرۃ النساء، ج: 2، ص: 281، ط: قدیمی)

ترجمہ:" رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"

(مظاہر ِحق، ج:3، ص: 366، ط:  دارالاشاعت)

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها ‌وصامت ‌شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت."

(‌‌‌‌كتاب النكاح، باب عشرة النساء، الفصل الثانی، ج:2، ص: 971، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"  حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"

(مظاہر حق، 3/366، ط: دارالاشاعت)

بخاری شریف  میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «أريت النار فإذا أكثر أهلها النساء، يكفرن» قيل: أيكفرن بالله؟ قال: " يكفرن العشير، ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر، ثم رأت منك شيئا، قالت: ما رأيت منك خيرا قط. " 

(صحیح البخاری، باب کفران العشیر، رقم الحدیث:29، ج:1، ص:15، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے، کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں , پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔

وفیہ ایضاً:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا."

(کتاب الادب، ج:3، ص:399، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بدگمانی قائم کرنے سےاجتناب کرو،کیونکہ بدگمانی باتوں کا سب سےبدتر جھوٹ ہے(اپنےسےغیرمتعلق اموراوربلا ضرورت دوسروں کی) ٹوہ میں نہ رہوکسی کی جاسوسی نہ کرو،کسی کے سودے نہ بگاڑو،آپس میں حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو،ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو اور سارے مسلمان خدا کے بندےاورایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو۔"

(مظاہرِ حق،ج:4، ص:576، ط؛: دارالاشاعت)

الترغيب والترهيب میں ہے:

 " وعن الضحاك في قوله –عز وجل- {‌ولا ‌تجسسوا} قال: لا تلتمس عورة أخيك."

(‌‌باب في الترهيب من التجسس على المرء المسلم، ج:1، ص:399، ط: دار الحديث - القاهرة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: ‌بقي ‌هل ‌يباح ‌الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما."

(كتاب النكاح، مطلب في حكم إسقاط الحمل،  ج:3، ص:176، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل."

(كتاب النكاح، مطلب في حكم إسقاط الحمل،  ج:3، ص:176، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمرأة إذا ضربت بطن نفسها، أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدة، أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج، وإن فعلت بإذنه لا يجب شيء كذا في الكافي."

(كتاب الجنايات، الباب العاشر في الجنين، ج:6، ص:35، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں