بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل کا حکم


سوال

اگر حمل کا ارادہ نہ ہو اور حمل ٹھہر جائے تو کیا شریعت حمل گرانے کی اجازت دیتی ہے؟

جواب

 شریعت کی نظر میں اولاد کی کثرت پسندیدہ ہے، اور جسمانی تعلق قائم کرنے کا مقصد بھی یہی ہے، اور شرعی عذر کے بغیر موانعِ حمل تدابیر اختیار کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ البتہ اگر عورت کی صحت متحمل نہ ہو  تواولاد میں وقفہ کرنا جائز ہے، اور اس کے لیے معالج کی راہ نمائی سے شرعاً جائز اور مناسب تدبیر  اختیار کی جاسکتی ہے ،حمل ٹھہرنے کے بعداگر  کوئی مسلم دین دار ڈاکٹر کہے کہ اس سے عورت کی جان کو یقینی خطرہ لاحق ہے تو   چار ماہ سے قبل  اسقاط حمل کی گنجائش ہے البتہ  چار ماہ کے بعد اسقاطِ حمل کسی صورت  جائزنہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله ويكره إلخ) أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ‌ليس ‌بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية".

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:429،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں