بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل کی دوا فروخت کرنے کا حکم


سوال

 کیا دوکاندار کے لئے اسقاط حمل کی دوا بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

اسقاطِ حمل بعض  صورتوں میں  مخصوص اعذار کی بنا پر جائز ہے ، اور ان صورتوں میں اسقاطِ حمل کی دوا فروخت کرنا بھی جائز ہے،اس کے علاوہ  یعنی بغیر شرعی عذر کے  اسقاطِ حمل حرام ہے، اس لیے  ان صورتوں میں اس کی دوا فروخت کرنا بھی  ناجائز ہے۔ آج کل اسقاطِ حمل کی ادویات اکثر اوقات غلط مقاصد ہی کے تحت استعمال کی جاتی ہیں اور جائز اور مباح مقاصد کے لیے بہت ہی کم استعمال ہوتی ہیں، اس لیے ان ادویات کی  خرید وفروخت سے احتراز کرنا چاہیے،البتہ اگر کوئی شخص صرف جائز اور مباح مقاصد کے تحت ان ادوایات کو استعمال کرنا چاہتا ہے اور فروخت کرنے والے کو اس  بارے میں مکمل طور پر معلوم بھی ہے تو  صرف اس شخص کو دوا بیچی جا سکتی ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ."

"ترجمه:اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہواور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں "

(تفسیر بیان القرآن،سورۃ المائدۃ، الآیة:444/1،2،ط: رحمانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وما كان سببا لمحظور فهو ‌محظور."

(كتاب الحظر والإباحة،6 /350،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله ويكره إلخ) أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ‌ليس ‌بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية."

(کتاب الحظر والإباحة،429/6،سعید)

وفیہ ایضاً:

"فإذا ثبت کراهة لبسها للتختم، ثبت کراهة بیعها وصیغها،لما فیه من الإعانة علی ما لا یجوز، وکل ما أدی إلی ما لا یجوز لا یجوز."

( کتاب الحظر والإباحة،فصل في اللبس،360/6،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101868

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں