بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی بالوں کی خرید وفروخت کا حکم


سوال

 لوگ اپنے بالوں میں کنگھی کرنے کے بعد اکھڑے ہوئے اور پھٹے ہوئے بالوں کو گٹر اور کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ ان بالوں کو بہت سے غریب لوگ جمع کرکے بال کے تاجروں کو فروخت کرتے ہیں۔ اس صورت میں سوال یہ ہے کہ بال انسانی عضو ہے جس کا احترام کیا جانا  چاہیے،  تو  کنگھی کرنے کے بعد اکھڑے ہوئے بالوں کو پھینک دینا کیسا ہے؟ گندی جگہوں پر پڑے بالوں کو جمع کرکے اس کو بیچنا اور تاجروں  کے لیے اس کو  خریدنا کیسا ہے؟ واضح رہے کہ مقامی ایک مفتی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ایسے پڑے ہوئے بالوں کی خرید و فرخت جائز ہے؛ کیوں کہ  اس طرح کے گرے پڑے بالوں کی تجارت تکریمِ  انسان  کے منافی نہیں ہے!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ٹوٹے یا نکلے ہوئے بالوں کو دفن کرنا یا  دریا برد کردینا چاہیے، یا ایسی جگہ مٹی میں ڈال دیں جہاں بے توقیری نہ ہو، گٹر یا نالی وغیرہ میں بہانا جائز نہیں۔ 

نیز  انسانی بالوں کی خرید و فروخت شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ  بال انسانی جسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام ہیں،  نیز اجنبی مرد کے لیے عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سر میں کنگھی کرتے ہوئے عورتوں کے جو بال گر جائیں انہیں کسی جگہ دفنا دینا  چاہیے، اگر دفنانا مشکل ہو تو کسی کپڑے وغیرہ میں ڈال کر ایسی جگہ ڈال دیے جائیں   جہاں کسی اجنبی کی نظر نہ پڑے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(كما بطل) (بيع صبي لا يعقل ومجنون) شيئًا و بول (و رجيع آدمي لم يغلب عليه التراب) فلو مغلوبا به جاز كسرقين وبعر، واكتفى في البحر بمجرد خلطه بتراب (وشعر الإنسان) لكرامة الآدمي ولو كافرا ذكره المصنف وغيره في بحث شعر الخنزير.

(قوله: وشعر الإنسان) ولا يجوز الانتفاع به لحديث «لعن الله الواصلة والمستوصلة» وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن هداية.[فرع] لو أخذ شعر النبي صلى الله عليه وسلم ممن عنده وأعطاه هديةً عظيمةً لا على وجه البيع فلا بأس به، سائحاني عن الفتاوى الهندية... (قوله: ذكره المصنف) حيث قال: والآدمي مكرم شرعًا وإن كان كافرًا فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي وهو غير جائز وبعضه في حكمه وصرح في فتح القدير ببطلانه ط. قلت: وفيه أنه يجوز استرقاق الحربي وبيعه وشراؤه وإن أسلم بعد الاسترقاق، إلا أن يجاب بأن المراد تكريم صورته وخلقته، ولذا لم يجز كسر عظام ميت كافر وليس ذلك محل الاسترقاق والبيع والشراء، بل محله النفس الحيوانية فلذا لا يملك بيع لبن أمته في ظاهر الرواية كما سيأتي فليتأمل".

(باب البيع الفاسد، مطلب في بيع المغيب في الأرض، ج: ۵، صفحہ: ۵۸، ط: ایچ، ایم، سعید) 

حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح میں ہے:

"وفي الخانیة: ینبغي أن یدفن قلامة ظفره ومحلوق شعره، وإن رماه فلابأس به".

(حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ج: ۱، صفحہ: ۵۲۷)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"یدفن أربعة: الظفر، والشعر، وخرقة الحیض والدم".

(الباب التاسع عشر، ج: ۵، صفحہ۳۵۸، ط: دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’بال اورناخن کو جلانا جائز نہیں، ایسی عورتیں جو دفن نہیں کرسکتیں وہ کسی کپڑے یا کاغذ میں لپیٹ کر کہیں ڈال دیں، لیکن بالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔‘‘

(فتاوی محمودیہ ج:٩ص:٤٠١)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں