بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامک میوچل فنڈ اور بینکوں کی دوسری اسلامی اسکیموں کا حکم


سوال

آج کل مختلف اسلامی بنک اور دیگر کنونشنل بنکوں کے اسلامی بنکاری کے شعبے 'اسلامک میوچل فنڈز' اور ماہانہ آمدنی کے حوالے سے اسکیم میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے ہیں، اور اس کو عین شرعی بھی بتاتے ہیں اور مختلف اکابرین کے فتاوی بھی دیتے ہیں، برائے مہربانی اس حوالے سے شرعی احکامات بتا دیں۔

جواب

واضح رہے کہ مروجہ غیر سودی بینکوں میں  روایتی سودی   بینکوں کے  میوچل فنڈ، و دیگر منافع بخش اسکیموں   میں پیسہ لگاناشرعًا ناجائز  ہے اور ان سے حاصل ہونے والی آمدن حلال نہیں۔

اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:

"﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾."[البقرة: 278-280]

تفسیرِقرطبی  میں ہے:

"الآيات الثلاث تضمنت أحكام الربا وجواز عقود المبايعات، والوعيد لمن استحل الربا وأصر على فعله. وفي ذلك ثمان وثلاثون مسألة: الأولى- قوله تعالى: (الذين يأكلون الربا) يأكلون يأخذون، فعبر عن الأخذ بالأكل، لأن الأخذ إنما يراد للأكل. والربا في اللغة الزيادة مطلقا،... وقياس كتابته بالياء للكسرة في أوله، وقد كتبوه في القرآن بالواو. ثم إن الشرع قد تصرف في هذا الإطلاق فقصره على بعض موارده، فمرة أطلقه على كسب الحرام، كما قال الله تعالى في اليهود:" وأخذهم الربوا وقد نهوا عنه "... وإنما أراد المال الحرام، كما قال تعالى:" سماعون للكذب أكالون للسحت " يعني به المال الحرام من الرشا، وما استحلوه من أموال الأميين حيث قالوا:" ليس علينا في الأميين سبيل ". وعلى هذا فيدخل فيه النهي عن كل مال حرام بأي وجه اكتسب. والربا الذي عليه عرف الشرع شيئان: تحريم النساء، والتفاضل في العقود... وهذا كله محرم باتفاق الأمة. الثانية- أكثر البيوع الممنوعة إنما تجد منعها لمعنى زيادة إما في عين مال، وإما في منفعة لأحدهما من تأخير ونحوه. ومن البيوع ما ليس فيه معنى الزيادة، كبيع الثمرة قبل بدو صلاحها، وكالبيع ساعة النداء يوم الجمعة، فإن قيل لفاعلها: آكل الربا فتجوز وتشبيه."

(الجامع لأحكام القرآن، البقرة، ج3، ص348، ط: دار الكتب المصرية - القاهرة)

مسندِ دارِمی میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: أخبرني أسامة بن زيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إنما ‌الربا في الدين"، قال عبد الله: معناه درهم بدرهمين."

3، ص1680، ط: دار المغني - سعودي عرب)

مصنَّف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن عون بن أبي جحيفة عن أبيه -رضي الله عنه- قال: لعن النبي صلى الله عليه وسلم آكل ‌الربا ومؤكله."

(أکل الربا و ما جاء فيه، ج12، ص230،  ت: ناصر بن عبد العزيز الشثري، ط: دار كنوز إشبيليا-السعودية)

تفصیل کے لیے دیکھیے:

  1. "مروّجہ اسلامی بینکاری"  ۔
  2. مفتی احمد ممتاز صاحب کی کتاب "غیر سودی بینکاری، ایک منصفانہ علمی جائزہ"۔
  3.  ڈاکٹر مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ کی کتاب "جدید معاشی مسائل/اسلامی صکوک"۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں