مروجہ اسلامک بینکنگ کے نظام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
مروجہ اسلامی بینکوں کا طریقِ کار مکمل طور پر شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، بلکہ سودی معاملات کے مشابہ ہے؛ لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی تمویلی معاملات کرنا اور قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"و عن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه " إن آخر ما نزلت آية الربا، وإن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قبض ولم يفسرها لنا، فدعوا الربا والريبة ". (رواه ابن ماجه والدارمي)»
الربا والريبة) أي شبهة الربا أو الشك في شيء مما اشتملت عليه هذه الآيات أو الأحاديث فإن الشك في شيء من ذلك ربما يؤدي إلى الكفر."
(کتاب البیوع باب الرباج نمبر ۵ ص نمبر ۱۹۲۶، دار الفکر)
الدر المختار میں ہے:
"والبيوع الفاسدة فكلها من الربا."
(فتاوی شامی، کتاب البیوع ، باب الربا ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۹،ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311102226
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن