بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ اسلامک بینکنگ کا حکم


سوال

مروجہ اسلامک بینکنگ کے نظام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب

مروجہ اسلامی  بینکوں   کا طریقِ کار مکمل طور پر  شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، بلکہ سودی معاملات کے مشابہ ہے؛  لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا اور قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"و عن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه " إن آخر ما نزلت آية الربا، وإن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قبض ولم يفسرها لنا، فدعوا الربا والريبة ". (رواه ابن ماجه والدارمي)»

الربا والريبة) أي شبهة الربا أو الشك في شيء مما اشتملت عليه هذه الآيات أو الأحاديث فإن الشك في شيء من ذلك ربما يؤدي إلى الكفر."

(کتاب البیوع باب الرباج نمبر ۵ ص نمبر ۱۹۲۶، دار الفکر)

الدر المختار میں ہے:

"والبيوع الفاسدة فكلها من الربا."

(فتاوی شامی، کتاب البیوع ، باب الربا ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۹،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں