بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی بینک میں کیا سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے؟


سوال

1۔ایک فیملی جس کا ذرائع آمدن کچھ بھی نہیں ہے، اسے وراثت کے طور پر مبلغ 20,00,000 (بیس لاکھ روپے) کی رقم ملی ہے، کیا یہ رقم وہ اسلامی بینک(میزان بینک) میں رکھ کر اپنی گزر اوقات کے لیے منافع حاصل کرسکتے ہیں؟

2۔ایک خاتون ہے جوکہ غیر شادی شدہ ہے اور ذرائع آمدن کچھ بھی نہیں ہے، اسے وراثٹ کے طور پر مبلغ 20,00,000 (بیس لاکھ روپے) ملے ہیں ، کیا وہ اسلامی بینک (میزان بینک ) میں کچھ رقم رکھ کر اپنی گزر اوقات کے لیے منافع حاصل کرسکتے ہیں؟

جواب

1-2۔واضح رہے کہ  میزان بینک یا   اس کے علاوہ مروجہ غیر سودی بینکوں میں  سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے،  ملک کے اکثر جید اور مقتدر مفتیانِ کرام  کی رائے یہ ہے کہ  مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میزان بینک یا   اس کے علاوہ مروجہ غیر سودی بینکوں  میں سرمایہ کاری کرنا اور کسی بھی قسم کا تمویلی معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں،البتہ  گزر بسرکے لیے    مذکورہ رقم  کو کسی  جائز سرمایہ کاری  میں لگایا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴿البقرة:٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴿البقرة:٢٧٩﴾."

ترجمہ: اے ایمان والوں، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ پھر اگر تم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے اور اگر تم توبہ کر لو گے تو تم کو تمہارے اصل مل جاویں گے نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کویہ ظلم کرنے پائے گا۔ (از بیان القرآن)

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا ‌قتيبة، قال: حدثنا ‌أبو عوانة ، عن ‌سماك بن حرب، عن ‌عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن ‌ابن مسعود قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل ‌الربا وموكله وشاهديه وكاتبه»"

(باب ما جاء في أكل الربا، ج:2، ص:496، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت).

       سنن ابنِ ماجہ میں ہے:

"حدثنا نصر بن علي الجهضمي قال: حدثنا خالد بن الحارث قال: حدثنا سعيد، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن عمر بن الخطاب، قال: «إن آخر ما نزلت آية ‌الربا، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض ولم يفسرها لنا، فدعوا ‌الربا والريبة»"

(باب التغليظ في الربا، ج:2، ص:764، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں