بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی سزاؤں کا نفاذ کہاں ہوتا ہے اور کس کی ذمہ داری ہے؟


سوال

اسلامی حدود کا نفاذ کہاں ہو گا؟ کیا ہندوستان،  پاکستان،  نیپال جہاں پر اسلامی حکومت نہیں اور اسلامی قوانین بھی نافذ نہیں وہاں پر کیا حکم ہے؟ مثلاً ہندوستان میں کسی نے زنا کیا اور ہندوستانی عدالت میں اس کا کو مقدمہ دائر نہیں ہوا تو کیا اسلامی حکومت آنے کے بعد  اس کے اس جرم پر سزا دی جاۓ گی؟

 

جواب

شرعی اعتبار سےاسلامی حدود کا نفاذ اسلامی ریاست میں ہوتا ہے اور ان حدودکا نفاذبھی اسلامی ریاست  کی ذمہ داری ہے،لہذ اہندوستان اور نیپال تو غیر اسلامی ریاست ہیں ،لہذا اِن دونوں ریاستوں میں اگر کوئی شخص زنا کرتا ہے تو چوں کہ وہاں اسلامی ریاست ہی نہیں ہے تو  نفاذ حد کا سوال بھی نہیں ہوتا،اور اگر بعد میں  ان دونوں ممالک میں اسلامی ریاست قائم ہوجاتی ہے تو  اسلامی ریاست قائم ہوجانے کے بعد گزشتہ دور حکومت کے مجرمین پر شرعی حدود کا نفاذ نہیں ہوگا،البتہ آئندہ اگر کسی شخص سے موجبِ حد کوئی گناہ سرزد ہوگا تو شرعی طریقہ پر سزا دینا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔

پاکستان آئین کے اعتبار سے ایک اسلامی ریاست ہے ، اگرچہ اسلامی حدود  کا نفاذ  پاکستان میں نہیں ہے،لیکن اگر کوئی شخص پاکستان کی ریاست میں موجبِ حد کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو شرعی اعتبار سے ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شخص کو دستورِ شریعت کے مطابق سزا دے،لیکن ان سزاؤں کے نفاذ کی ذمہ داری شرعی اعتبار سے ریاست کی ذمہ داری ہے، جس کو نافذ نہ کرنے کی صورت میں ریاست ہی گناہ گار ہوگی،عوام یا رعایا میں سے شرعی اعتبار سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ شرعی سزاؤں کا نفاذ  ماورائے عدالت از  خود کرنے لگے،لہذ ا اگر کوئی شخص پاکستان میں زنا کا مرتکب ہوتا ہے اور  ریاست شرعی سزاؤں کو نافذ کرتی ہے تو   مذکورہ شخص کو بھی شرعی اعتبار  سے جرم  ثابت ہونے کے بعد سزا ہوگی۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"لأن الزنا لم ينعقد سببا لوجوب الحد حين وجوده؛ لعدم الولاية فلا يستوفى بعد ذلك."

(کتاب الحدود،ج7،ص34،ط؛دار الکتب العلمیة)

وفیه ایضاً:

"وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا."

(کتاب الحدود،ج7،ص57،ط؛دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں