اسلامی ریاست میں مندر بنانا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ مسلمانوں کے ملک میں مسلمان حاکم پر لازم ہے کہ غیر مسلم اقلیت کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرے لیکن شریعت نے غیر مسلموں کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ عوامی مقامات پر اپنے مذہب کا پرچار کریں، غیر مسلموں کی عبادت اپنے گھروں اور قدیم عبادت گاہوں تک محدود رہے گی، غیر مسلم اپنے لئے نئی عبادت گاہ تعمیر نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی کسی قدیم عبادت گاہ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
لہذا ہندؤں سمیت کسی بھی غیر مسلم کو پاکستان سمیت مسلمانوں کے کسی بھی ملک کے کسی شہر یا گاؤں میں کہیں بھی نئے مندر یا غیر مسلم اقلیت کے کسی بھی نئے عبادت خانے کی تعمیر کی شرعاً اجازت نہیں ہے اور نہ ہی مسلمان کاریگروں اور مزدوروں کے لیے ایسی کسی تعمیر میں حصہ لینا درست ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 203):
"(ولا) يجوز أن (يحدث بيعةً، و لا كنيسةً و لا صومعةً، ولا بيت نار، ولا مقبرةً) ولا صنمًا، حاوي (في دار الإسلام) ولو قرية في المختار، فتح.
مطلب في بيان أن الأمصار ثلاثة وبيان إحداث الكنائس فيها [تنبيه]
في الفتح: قيل الأمصار ثلاثة ما مصره المسلمون، كالكوفة والبصرة وبغداد وواسط، ولا يجوز فيه إحداث ذلك إجماعًا وما فتحه المسلمون عنوةً فهو كذلك، وما فتحوه صلحًا فإن وقع على أن الأرض لهم جاز الإحداث وإلا فلا إلا إذا شرطوا الإحداث اهـ ملخصًا ... و اتفقت مذاهب الأئمة الأربعة على أنهم يمنعون عن الإحداث كما بسطه الشرنبلالي بنقله نصوص أئمة المذاهب".
فقط و الله أعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
مسلم ممالک میں غیر مسلم اقوام کی عبادت گاہ، مندر وغیرہ تعمیر کرنے کا حکم
فتوی نمبر : 144111201089
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن