جناب میں 5 سال سے کرائے کے مکان میں رہ رہا ہوں اور پلاٹ خرید کر باقی پیسے کاروبار میں لگا دیے، اب حالات ملک کے کافی خراب ہیں ،آگے کرایہ دینا بھی مشکل ہے اور قرض حسنہ آج کل کوئی دیتا نہیں تو میں میزان بینک سے قرض پر پیسے لے سکتا ہوں ،جس سے میں ذاتی پلاٹ پر گھر تعمیر کرلوں اور کرائے سے بچ جاؤں، کیا یہ جائز ہے یا حرام ہے؟ سنا ہے مفتی تقی عثمانی صاحب نے فتویٰ دیا ہے میزان بینک سے قرض جائز طریقے سے مل جاتا ہے ، رہنمائی فرما دیں ۔
میزان بینک سمیت کسی بھی مروجہ اسلامی بینک کے معاملات مکمل طور پر شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے میزان بینک سمیت کسی بھی مروجہ اسلامی بینک سے قرضہ لینا جائز نہیں ہے ۔
لہذا اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور سے غیر سودی قرضہ حاصل کر لیں ۔
اور اگر قرض لینے کا کوئی اور بندوبست نہ ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے قناعت کرنا چاہیے، اگر آدمی حرام سے بچنے کے لیے ہمت بلند رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا}."
[الطلاق: 2، 3]
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".
( باب الربوا، ج:1، ص: 243، قدیمی)
مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه».
( باب الربوا ، ج؛1، ص:246، ط؛ قدیمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101730
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن