ہم بینک اسلامی سے گھر صحیح کروانے کے لیے 1000000 روپے لینا چاہ رہے ہیں، یہ سود تو نہیں؟
واضح رہے کہ مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، اور مروجہ غیر سودی بینک اور روایتی بینک کےبہت سے معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس معاملے میں بھی بہت سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً ایک ہی معاملہ میں اجارہ اور بیع کو جمع کرنا اور دونوں کو عملاً ایک دوسرے کے لیے شرط قرار دینا وغیرہ۔ لہذا میزان بینک سے گھر بنانے کے لیے قرض لینے کا معاملہ کرنا شرعًا جائز نہیں ہے۔( تفصیلی معلومات کے لیے ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210200263
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن