بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ اسلامی بینک سے ہاوس فنانسنگ کا حکم


سوال

ہم دبئی  میں رہتے ہیں اور یہاں پہ اسلامک بینکنگ سسٹم بھی ہے، جس میں یہ لوگ گھر اقساط پہ دیتے ہیں،ان کا موقف یہ ہے کہ یہ اسلامک بینکنگ ہے،آپ گھر کا کرایہ دے رہے ہیں اور جیسے ہی طے شدہ مدت ختم ہوئی،  بینک یہ گھر آپ کے نام ٹرانسفر کر دے گا، تو جناب گزارش ہے کہ اس معا ملے میں راہنمائی  فرمادیں کہ کیا اسلامک بینکنگ سے پراپر ٹی خریدنا  صحیح  ہے؟ 

جواب

مروجہ اسلامی  بینکوں کے توسط سے  پراپرٹی  خریدنا(ہاؤس فنانسنگ )درج ذیل شرعی قباحتوں کی بناپر جائز نہیں ہے :

1.پہلی قباحت یہ ہے کہ بینک سے خریدنے والے اور بینک کے درمیان معاہد ہ کے تحت  دو عقد ہوتے ہیں ، ایک بیع(خرید وفروخت )اور دوسرا اجارہ(کرایہ داری )کا عقدہوتاہے ، اور یہ طے پاتاہے  کہ اقساط میں سے اگر کو ئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع  نہیں کرائی گئی  تو خریداربینک کی جانب سے مقررہ جرمانہ اداکرنے کا پابند ہوگا جوکہ شرعاً جائزنہیں ہے ۔

2.دوسری قباحت یہ ہے  کہ بینک  سے قسطوں پر خریدتے وقت  دو عقد   بیک وقت  ہوتے ہیں ، ایک عقد بیع کا ہوتاہے جس کی بناپر قسطوں   کی  شکل میں  ادائیگی  خریدار پر واجب ہو تی ہے اور اسی کے ساتھ  ہی اجارے    کابھی معاہدہ ہوتاہے  جس کی بناپر  ہر ماہ  کر ائے کی مد میں بینک  خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتاہے اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جا تے ہیں جو کہ ناجائز ہے ،یعنی معاہدے کے اندر یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ جس دن گھر کی مالیت کے بقدر کرایہ پورا ہوجائے گا تواس کے بعد یہ گھر  بینک سےکرایہ پر لینے والے شخص کی ملکیت میں  آجائے گا،تواس طرح ایک ہی وقت میں دو معاملے پائے گئے،جو کہ شرعاً نا جائز ہے،کیونکہ شرعاً ایک معاملہ ختم ہونے سے پہلے دوسرا معاملہ نہیں کیا جاسکتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس  سے منع فرمایا ہے۔

3.تیسری خرابی یہ ہے کہ  ’’کائی بور‘‘ کے ریٹ کی وجہ سے اصل قیمت میں کمی زیادتی  ہو تی ہےکہ اگر ڈالر کا ریٹ بڑھ جائے تو قیمت ملکی کرنسی میں بڑھ جاتی ہے ،حالاں کہ سوداکرتے وقت جس قیمت پر سودا ہوتا ہے تو سودے کے بعد فروخت کنندہ کی طرف سے اس قیمت میں اضافہ کرنا جائز نہیں ہے۔

حدیث میں ہے :

"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ‌بيعتين ‌في ‌بيعة."

(سنن ترمذی ،ابواب البیوع ،ج:3،ص:525،مصطفی بابی الحلبی )

البحرالرائق  میں  ہے :

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير ‌سبب ‌شرعي."

(کتاب الحدود،فصل فی التعزیر ،ج:5،ص:44،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا زاد في الثمن لا بد أن يقبل الآخر في المجلس حتى ولو لم يقبل وتفرقا بطلت، كذا في الخلاصة."

(کتاب البیوع،الباب السادس عشر فی الزیادۃ فی الثمن ،ج:3،ص:171،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں