بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی بینک میں نوکری کرنا ، روایتی بینک سے حاصل ہونے والی تنخواہ کا حکم


سوال

میں ایک روایتی(غیر اسلامی) بینک میں گھریلو قرض کے شعبہ میں کام کرتا ہوں،جو کہ میں جانتا ہوں کہ سودی ہے ،اب دوسری جگہ نوکری تلاش کر رہا ہوں ،میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اسلامی بینک میں نوکری کر سکتا ہوں،اگر میں توبہ کر کہ دوسری جگہ کام کرتا ہوں تو یہاں کی آمدن سے جو میں نے خرچ کیا یا محفوظ کیا اس کا کیا اصول ہے ؟

جواب

مروجہ اسلامی بینکوں کا طریقۂ تمویل چوں کہ  اسلامی اور غیر سودی نہیں ہے، بلکہ کئی سودی اور غیر اسلامی معاملات پر مشتمل ہے ، لہٰذا ایسے اداروں میں ملازمت اختیار کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہو سکتا،  آپ کو چاہیے کہ ایک بے روزگار کی حیثیت سےمتبادل ملازمت کے  لیے  کو شش کرتے رہیں، جوں ہی جائز ملازمت میسر آجائے بینک کی ملازمت فورا چھوڑ دیں، جب تک نوکری نہیں مل پاتی، اور آپ کے لئے چھوڑنا مشکل ہو اور آپ کا کوئی ذریعہ معاش بھی نہ ہو تو ناجائز سمجھتے ہوئے مذکورہ بینک سے ملازمت و معاوضہ کا تعلق رکھنے کی گنجائش ہے،  مگر ساتھ ہی تو بہ و استغفار بھی کرتے رہیں اور استطاعت ہونے پر اس عرصہ میں بینک سے حاصل شدہ مراعات کے بقدر صدقہ کرنا بہتر ہوگا، اور جو رقم محفوظ ہے،  اگر  فی الحال  اس کا ضروریات میں استعمال کرنا ضروری ہو تو استعمال کرسکتے ہیں اور اگر ضرورت سے زائد ہو تو صدقہ کردیں۔ اور حلال رقم آنے کی صورت میں جتنی رقم خرچ کی اس کے بقدر صدقہ کرنا ہوگا۔

شرح النووی علی المسلم میں ہے :

"(‌لعن ‌رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء) هذا تصريح بتحريم كتابة المبايعة بين المترابيين والشهادة عليهما وفيه تحريم الإعانة على الباطل والله أعلم".

(کتاب البیوع ، باب الربا ج: 11 ص: 26 ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے :

"والحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

(کتاب البیوع ، ‌‌باب البيع الفاسد ج: 5 ص: 99 ط :سعید)

اعلاء السنن میں ہے :

"فطريق التخلص منه و تمام التوبه بالصدقه به ، فان كان محتاجا إليه فله أن يأخذ بقدر حاجته ويتصدق بالباقي  ، فهذا حكم كل كسب خبيث لخبث عوضه عينا كان أو منفعة. ولا يلزم من الحكم بخبثه وجوب رده على الدافع ،  فإن النبي صلى الله عليه وسلم حكم بخبث كسب الحجامي ولا يجب رده على الدافعه."

(كتاب الإجارة ، باب النهى عن مهر البغى وحلوان الكاهن ج: 16 ص: 195 ط: ادارة القران والعلوم الاسلاميه كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں