بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اسلامی بینک سے گاڑی لینا شرعا صحیح ہے؟


سوال

کیا  اسلامی بینک سے گاڑی لینا شرعا صحیح ہے؟

 

جواب

مروجہ اسلامی بینکوں سے  گاڑی خریدنے کا جو طریقہ رائج ہے  اس میں  بینک اور   خریدار  کے  درمیان معاہدہ کے تحت دو عقد ہوتے ہیں، ایک بیع (خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) کا عقدہوتا ہے، اور یہ طے پاتاہے کہ اقساط میں سے اگر کوئی  قسط وقتِِ   مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو  بینک کی  جانب سے مقرر ہ   جرمانہ   (اجباری  تصدق کے نام سے)   لیز کرانے  والا شخص ادا کرنے کا پابند ہو گا؛ اس لیے لیزنگ کے رائج طریقِ کار میں دو شرعی قباحتیں ہیں:

1۔ مالی جرمانہ لگانا، یہ شرعاً ناجائز ہے۔

 2۔۔  دوسری قباحت یہ ہے کہ لیزنگ میں دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں، ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی اجارہ (کرائے) کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں جو کہ   ناجائز ہیں۔

پس مذکورہ  بالا شرعی قباحتوں کی وجہ سے مروجہ اسلامی بینکوں سے لیزنگ کے ذریعہ گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے۔

"(وعن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة») أي: صفقة واحدة وعقد واحد".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: باب المنهي عنها من البيوع (5/ 1938)، ط.  دار الفكر، بيروت - الطبعة: الأولى، 1422هـ =2002م)

"فتاوی شامی"  میں ہے:

"قوله: (لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح:  وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز اه، ومثله في المعراج وظاهره: أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه،  ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان   قوله ( وفيه الخ ) أي: في البحر حيث قال: وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ".

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار:كتاب الحدود،  باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال (4/ 61)، ط. سعيد)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں