بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلام میں کون سے کھیل جائز اور کون سےکھیل ناجائز ہیں ؟


سوال

 اسلام میں کس کس کھیل کی اجازت ہے اور کس کس کھیل کی ممانعت ہے؟ خاص کر مجھے لڈو، تاش، شطرنج اسی طرح کی کچھ اور گیمیں جن میں چھکے کا استعمال ہوتا ہے، کی تفصیل بتا دیں۔

جواب

واضح رہے کہ اسلام نہ تو کھیل کود کی کھلے عام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی سرے سے کھیل کود کو ممنوع قرار دیتا ہے ،بلکہ اس میں اعتدال کی راہ اپناتا ہے کہ وہ کھیل جوکسی دینی یا دنیوی منافع ( مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ )پر مشتمل ہو اس کی اسلام اجازت دیتا ہے اور جس میں کوئی دینی یا دنیوی نفع نہ ہو اسلام اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور جس کھیل میں کفار و فساق کے ساتھ مشابہت پائی جائے یا دیگر شرعی مفاسد  اس میں موجود ہوں تو اسلام اس کو ممنوع اور ناجائز قرار دیتا ہے،اس لیے بعض روایات میں بعض کھیلوں کی اجازت اور بعض کی ممانعت مذکور ہے۔

روایات میں جن کھیلوں کے جواز کا ذکر موجود ہے،ان میں گھڑ دوڑ،نیزہ بازی ،تیر اندازی ،تیراکی ،پیدل دوڑلگانا،کشتی کھیلناوغیرہ شامل ہیں ،تو مذکورہ کھیل جن کی اسلام نے اجازت دی ہےوہ ضرورکسی نہ کسی  دینی یا دنیوی فائدے پرمشتمل ہیں ،لہذا ان فوائد کے حصول کےلیے مذکورہ کھیل کھیلنا جائز ہیں ،البتہ  ان میں بھی خلافِ شرع امور ( مثلاً قمار وجوا،نمازوں اور ذکرالہی سے غفلت اور حقوق العباد ضائع کرنا)کا ارتکاب کرنے سے احتراز ضروری ہے،اسی طرح ستر ڈھانپنا ضروری ہے،نیز محض وقت گزاری اور لہو و لعب و مستی کے لیے بھی کھیلنے سے  احتراز ضروی ہے۔

اور روایات میں جن کھیلوں کی ممانعت مذکور ہے ان میں نرد،شطرنج ،کبوتر بازی وغیرہ شامل ہیں،مذکورہ کھیل جن سے اسلام نے منع کیا ہےان میں نہ تو کوئی دنیوی فائدہ موجود ہے اور نہ ہی دینی ،نیز ان میں محض وقت کا ضیاع ہے ،لہذا یہ کھیل ناجائز وحرام ہیں اور تاش ،لڈو وغیرہ میں بھی چوں کہ یہی علت موجود ہے کہ ان میں نہ تو کوئی دینی فائدہ موجود ہے او رنہ ہی دنیوی اور اس کے ساتھ ان میں وقت کا ضیاع ہی ضیاع ہے ،نیز اکثر اوقات ان میں قمار اور جوا پایا جاتا ہےجو کہ شرعاً حرام ہے،اس لیے تاش ،لڈو وغیرہ حرام ہیں اور اگر ان میں قمار اور جوا نہ پایا جائے تب بھی لہو و لعب ہونے اور محض وقت کا ضیاع ہونے کی وجہ سے ممنوع ہیں۔

نیز فقہاء کرام نے ان روایات کی روشنی میں چند اصول مرتب کیے ہیں ،جن میں غور کرکے موجودہ دور کےدیگر کھیلوں کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے،وہ اصول درج ذیل ہیں:

1: وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو ،اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔

2:اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت ( مثلاً جسمانی یادماغی ورزش وغیرہ) موجود ہو ،محض لہو و لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3: کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔

4: کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

تکملۂ فتح الملهم  میں ہے:

"فالضابط في هذا : أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا،ج:4،ص:435،ط:دارالعلوم کراچی) 

ترمذی شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي حسين، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة الجنة: صانعه يحتسب في صنعته الخير والرامي به والممد به " وقال: «ارموا واركبوا، ولأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا، كل ما يلهو به الرجل المسلم باطل، إلا رميه بقوسه، وتأديبه فرسه، وملاعبته أهله، فإنهن من الحق»."

(أبواب فضائل الجهاد،باب ما جاء في فضل الرمي في سبيل الله ،426/1،ط:رحمانية)

کنز العمال میں ہے:

"كل شيء ليس من ذكر الله لهو ولعب، إلا أن يكون أربعة: ملاعبة الرجل امرأته، وتأديب الرجل فرسه، ومشى الرجل بين الغرضين، وتعليم الرجل السباحة."ن عن جابر بن عبد الله وجابر بن عمير."

(حرف اللام، كتاب اللهو واللعب والتغني من قسم الأقوال، اللهو المباح،211/15 ،ط:مؤسسة الرسالة)

ہدایہ میں ہے:

"ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو"؛ لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص، وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال عليه الصلاة والسلام: "لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله"، وقال بعض الناس: يباح اللعب بالشطرنج؛ لما فيه من تشحيذ الخواطر وتذكية الأفهام، وهو محكي عن الشافعي رحمه الله. لنا قوله عليه الصلاة والسلام: "من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير"؛ ولأنه نوع لعب يصد عن ذكر الله وعن الجمع والجماعات فيكون حراماً؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر"۔ ثم إن قامر به تسقط عدالته، وإن لم يقامر لا تسقط؛ لأنه متأول فيه."

(كتاب الكراهية، مسائل متفرقة،478/4،ط:رحمانية)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اگر چہ شطرنج انصاب میں جو بمعنی بت کے ہے، داخل نہیں، مگر دوسرے دلائل سے حرام ہے، اگر مع القما ر ہو تو بالاجماع; لقوله تعالی: {انما الخمروالمیسر...} الآیة اور بدون قمار کے ہے تو مع الاختلاف، یعنی ہمارے نزدیک اس وقت بھی حرام ہے؛  لإطلاق ما روی صاحب الهدایة؛ لقوله علیه السلام: من لعب بالشطرنج والنردشیر فکأنما غمس یده في دم الخنزیر، ولقول علي رضي اﷲ عنه حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، فقال: ما هذه التماثیل التي أنتم لها عاکفون؟ وروی مثل هذا عن عمر رضي اﷲ عنه أیضاً حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، وقد شبه عملهم بعمل بعبادة الأوثان. اهـ غایة البیان ۱۲. وعن عبیداللّٰه بن عمر رضي اﷲ عنه أنه قال للقاسم بن محمد: هذه النرد یکرهونها فما بال الشطرنج؟ قال: کل ما ألهی من ذکر اللّٰه وعن الصلوٰة فهو میسر. تخریج زیلعی۱۲"... پس تقریرِ بالا سے واضح ہوا کہ شطرنج آیة : إنما الخمر و المیسر" میں مفہوماً تو داخل نہیں ،مگر حکماً و تحریماً   داخل ہے، لما مر من قول علي رضي الله عنه ما هذه التماثيل الخ  اور حالتِ فرصت میں بھی کھیلنا ائمہ ثلثہ کے نزدیک باعتبارِ مذہب کے اور شافعیؒ کے نزدیک باعتبارِ فقدانِ شرائطِ اباحت اور اتباعِ ہوی کے حرام ہے اور نفسِ حرمت میں بھی مثل خمر و میسر کے ہے ،اگرچہ بعض وجوہ سے تفاوت ہے۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ ،غناو مزامیر اور لہو و لعب و تصاویر کے احکام،شطرنج کا حکم،240/4 ،ط:دار العلوم کراچی)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے، اور اگر اس پر ہار  جیت کی ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے، گناہِ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، کامیاب مؤمنین کی شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کی ہے۔ {وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ}  کامیاب مؤمنین وہ ہیں جو لہو ولعب سے اعراض کرتے ہیں ،مولانا شیخ الہندرحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ: ’’خود تو لہو ولعب میں مصروف نہیں ہوئے، بلکہ اگر کوئی اور شخص بھی لہو ولعب میں مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘، بہر حال تاش سے اجتناب ضروری ہے۔"

   ( باب الحظر والاباحۃ،تاش یا لڈو اس نیت سے کھیلنا کہ دیگر گناہوں سے محفوظ رہیں،259/11، ط: اشتیاق پریس لاہور)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں