بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلام میں رویت ہلال کا اعتبار ہے،فلکیاتی اصول کا اعتبار نہیں ہے،برطانیہ والے سعودی عرب کی رویت کو فالو کر سکتے ہیں


سوال

1-عرض خدمت ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں علماء کرام و مفتیان عظام کیا فرماتے ہیں کہ :برطانیہ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان مختلف مسالک سے منسلک ہیں، جن میں حنفی مسلک کے لوگ بھی رہتے ہیں، بریلوی مکتبہ فکر  اور دیوبندی مسلک کے علاوہ تمام لوگ سعودی عرب کے ساتھ عیدین اور رمضان کا انعقاد کرتے ہیں ،تو کیا امت کے اتحاد کے لئے ہم بھی سعودی عرب کی رؤیت کو فالو کر سکتے ہیں ؟ 

2-دوسری بات کہ اگر فلکیاتی اصولوں کے مطابق ۲۹ شعبان یا رمضان کو چاند کی رؤیت ممکن نہ ہو لیکن اس کے باوجود چاند نظر آجائے ،اور اس پر شہادتیں بھی قائم ہوجائیں، تو کیا فلکیاتی اصولوں کے مطابق اس رؤیت کو مسترد کیا جائے گا؟ یا کہ اس رؤیت کے مطابق رمضان یا عیدین کا اعلان کیا جائے گا ؟ ان اہم ترین سوالات کے جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں درکار ہیں ۔

جواب

1۔واضح رہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہونے یا نہ ہونے میں تین قول ہیں ، اختلاف مطالع معتبر  نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جگہ چاند دیکھا گیا تو وہ رؤیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے کافی ہے، سب اس رؤیت کی بنا پر روزہ رکھیں گے یا افطار کریں گے، اختلاف مطالع معتبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جگہ چاند نظر آجائے تو وہ رؤیت سب کے لیے کافی نہیں، بلکہ ہر مطلع کی اپنی رؤیت کی بنا پر رمضان کے روزے کی ابتدا یا عید الفطر کا اعلان ہوگا، اس سلسلے میں اقوال درج ذیل ہیں:

پہلا قول:اختلاف مطالع کا کسی بھی  حال میں اعتبار نہیں ہےیعنی دنیا کے  ایک کونے میں چاند نظر آنے پر دوسرے کونے والوں پر بھی روزے رکھنا ، عید منانا لازم ہوگا،  یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہےاوراسے ظاہر الروایہ بھی کہا گیا ہے۔

دوسرا قول:ہر جگہ ہر حال میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے۔

تیسرا قول :بلاد قریبہ  میں تو اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہے،  لیکن بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے،یہ متاخرین احناف کا قول ہے،جمہور محققین علماء کرام تیسرے قول کو راجح قرار دیتے ہیں، اور اکابر دیوبند میں سے مولانا انور شاہ کشمیری،مولانا شبیر احمد عثمانی،مولانا مفتی محمد شفیع،مولانا محمد یوسف بنوری رحمہم اللہ وغیرہ اختلاف مطالع کو معتبر مانتے ہیں ،اور اسی پر فتوی ہے ،لہذا صورت مسؤلہ میں جو قریب ملک ہے جس کا مطلع برطانیہ کے ساتھ  ایک ہو ان کے ساتھ عیدین اور رمضان کا انعقاد کریں ،  سعودی عرب کی اتباع نہ کریں ۔

2۔ دین و اسلام میں  رویت ہلال کا اعتبار ہے،فلکیاتی اصول کا اعتبار نہیں ہے، چناں چہ  اگرمطلع  بالکل صاف  ہوچاند  دیکھنے سےکوئی بادل یا دھواں غبار وغیرہ مانع نہ ہو  تو ایسی صورت میں صرف دو تین آدمیوں کی  رویت اور شہادت شرعا قابل اعتماد نہیں ہوگی، ہاں اگر    مطلع ابر آلود ہو، ایسی حالت میں رمضان کے لیےایک ثقہ کی اور عیدین وغیرہ کے لیے دو ثقہ مسلمانوں کی شھادت کا اعتبار کیا جاسکتا ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

''اعلم أن نفس اختلاف المطالع لا نزاع فيه بمعنى أنه قد يكون بين البلدتين بعد بحيث يطلع الهلال له ليلة كذا في إحدى البلدتين دون الأخرى وكذا مطالع الشمس؛ لأن انفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار حتى إذا زالت الشمس في المشرق لا يلزم أن تزول في المغرب، وكذا طلوع الفجر وغروب الشمس بل كلما تحركت الشمس درجة فتلك طلوع فجر لقوم وطلوع شمس لآخرين وغروب لبعض ونصف ليل لغيرهم كما في الزيلعي وقدر البعد الذي تختلف فيه المطالع مسيرة شهر فأكثر على ما في القهستاني عن الجواهر اعتبارا بقصة سليمان - عليه السلام -، فإنه قد انتقل كل غدو ورواح من إقليم إلى إقليم وبينهما شهر.

ولا يخفى ما في هذا الاستدلال وفي شرح المنهاج للرملي وقد نبه التاج التبريزي على أن اختلاف المطالع لا يمكن في أقل من أربعة وعشرين فرسخا وأفتى به الوالد والأوجه أنها تحديدية كما أفتى به أيضا اهـ فليحفظ وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع بمعنى أنه هل يجب على كل قوم اعتبار مطلعهم، ولا يلزم أحد العمل بمطلع غيره أم لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة، وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق، فقيل بالأول واعتمده الزيلعي وصاحب الفيض، وهو الصحيح عند الشافعية؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم كما في أوقات الصلاة، وأيده في الدرر بما مر من عدم وجوب العشاء والوتر على فاقد وقتهما وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عملا بمطلق الرؤية في حديث «صوموا لرؤيته» بخلاف أوقات الصلوات.''

(کتاب الصوم،مطلب فی اختلاف المطالع،ج:2،ص:393،ط:سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

''( ولا عبرة باختلاف المطالع ) وقيل يعتبر ومعناه أنه إذا رأى الهلال أهل بلد ولم يره أهل بلدة أخرى يجب أن يصوموا برؤية أولئك كيفما كان على قول من قال لا عبرة باختلاف المطالع وعلى قول من اعتبره ينظر فإن كان بينهما تقارب بحيث لا تختلف المطالع يجب وإن كان بحيث تختلف لا يجب وأكثر المشايخ على أنه لا يعتبر حتى إذا صام أهل بلدة ثلاثين يوما وأهل بلدة أخرى تسعة وعشرين يوما يجب عليهم قضاء يوم والأشبه أن يعتبر لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم·''

(کتاب الصوم،ج:1،ص:321،ط:مکتبه امداديه،ملتان)

بدائع الصنائع میں ہے:

''إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر.''

(کتاب الصوم،فصل واما شرائطها،ج:2،ص:83،ط:دار الکتب العلمية)

فتح القدير میں ہے:

''(قوله وينبغي للناس) أي يجب عليهم وهو واجب على الكفاية (قوله لقوله - عليه الصلاة والسلام -) في الصحيحين عنه - عليه الصلاة والسلام - «صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غم عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين يوما.''

(كتاب الصوم،فصل في رؤية الهلال،ج:2، ص:313،ط:دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں