بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلام میں پہلی جماعت سے نماز کن نفوس نے ادا کی؟


سوال

 اسلام میں سب سے پہلےباجماعت نماز کس کس نے پڑھی تھی؟  اور سب سےپہلے امامت کس نے کی تھی،یعنی امام کون تھا؟

جواب

پنج وقتہ نماز کی  فرضیت  کے بعد  روئے زمین پر پہلے دو دن جو جماعت سے نماز ادا کی گئی اس میں من جانب اللہ امامت کی ذمہ داری حضرت جبریل علیہ السلام کے سپرد تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے حضرت جبریل کے مقتدی تھے۔

تاہم مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت  عفيف   کندی  رضي اللہ   عنہ  فرماتے ہیں کہ حج کے موقع  پر میں مکہ آیا،  اور تجارتی معاملات کے حوالے  سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ  سے ملاقات کے لیے گیا، اس وقت آپ منی میں تھے کہ میں نے ایک شخص  کو    قريب کے خیمہ سے نکلتے دیکھا کہ اس نے سورج کی طرف دیکھا اور نماز  شروع کردی،، پھر ان کے پیچھے ایک خاتون نکلی،  اور ان کے بعد  ایک بچہ نکلا، اور  ان دونوں نے پہلے شخص کے پیچھے  نماز شروع کردی،  تو میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ  سے ماجرادریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ  یہ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب میرا بھتیجا ہے، اور یہ اس کی بیوی خدیجہ  بنت  خويلد ہے،  میں نے پوچھا کہ یہ نوجوان کون ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ علي بن أبي طالب ہے، ان  کا  چچا زاد بھائی، پھر میں نے پوچھا کہ یہ کر کیا رہے ہیں؟  تو انہوں نے کہا کہ یہ نماز پڑھ رہے ہیں،  اور ان ( محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا خیال یہ ہے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں،  جب کہ ان کی اتباع بجز ان دو کے کسی نے نہیں کی ہے، اور ان کا خیال یہ ہے کہ ان پر قیصر و کسری کے خزانہ کھول دیے جائیں گے۔ حضرت عفيف  ( جو کہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) فرماتے ہیں اگر اللہ اس روز مجھے اسلام کی توفیق عطا فرمادیتا  تو میں محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والا تیسرا شخص ہوتا۔

مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں میں ہونے والی پہلی جماعت کی امامت نبی آخرالزمان  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمائی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والی خوش نصیب ہستیاں حضرت خدیجہ الکبری  اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہما  تھے۔

اسی طرح سے امام ماورد ی رحمہ اللہ  نے سورہ علق کی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے، جس میں  پہلی باجماعت نماز کی امامت   رسول  اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا فرمانا، مذکورہے، جب کہ مقتدیوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور آپ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے،  بہر صورت انسانوں میں پہلی جماعت  کی امامت  رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے ہی کرائی ہے، جب کہ پہلے مقتدی حضرت  خدیجہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما  ہیں۔

نوٹ: مسند احمد  کی مذکورہ روایت  میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اس جملے  "ان کی اتباع بجز ان دو کے کسی نے نہیں کی ہے"  سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس وقت تک حضرت ابوبکر اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما اسلام نہیں لائے تھے، اس لیے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والوں سے متعلق دیگر  روایات بھی  ہیں، ان سب کو سامنے رکھنے کے بعد جمہور اہلِ سیر نے یوں تطبیق دی ہے کہ خواتین میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں سے سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اسلام لائے ہیں، لہٰذا اس روایت کے یہاں ذکر کرنے کا مقصد  صرف نماز کی پہلی جماعت کا اِثبات ہے۔  

سنن الترمذي میں ہے:

" ١٤٩ - حدثنا هناد بن السري قال: حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن أبي ربيعة، عن حكيم بن حكيم وهو ابن عباد بن حنيف قال: أخبرني نافع بن جبير بن مطعم، قال: أخبرني ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أمني جبريل عند البيت مرتين، فصلى الظهر في الأولى منهما حين كان الفيء مثل الشراك، ثم صلى العصر حين كان كل شيء مثل ظله، ثم صلى المغرب حين وجبت الشمس وأفطر الصائم، ثم صلى العشاء حين غاب الشفق، ثم صلى الفجر حين برق الفجر، وحرم الطعام على الصائم، وصلى المرة الثانية الظهر حين كان ظل كل شيء مثله لوقت العصر بالأمس، ثم صلى العصر حين كان ظل كل شيء مثليه، ثم صلى المغرب لوقته الأول، ثم صلى العشاء الآخرة حين ذهب ثلث الليل، ثم صلى الصبح حين أسفرت الأرض، ثم التفت إلي جبريل، فقال: يا محمد، هذا وقت الأنبياء من قبلك، والوقت فيما بين هذين الوقتين. "

( أبواب الصلاة، باب ما جاء في مواقيت الصلاة عن النبي صلى الله عليه وسلم، ١ / ٢٧٨، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

مسند احمد میں ہے:

" ١٧٨٧ - حدثنا يعقوب، حدثنا أبي، عن ابن إسحاق، حدثني يحيى بن أبي الأشعث، عن إسماعيل بن إياس بن عفيف الكندي، عن أبيه عن جده، قال: كنت امرأ تاجرا، فقدمت الحج، فأتيت العباس بن عبد المطلب لأبتاع منه بعض التجارة، وكان امرأ تاجرا، فوالله إني لعنده بمنى، إذ خرج رجل من خباء قريب منه، فنظر إلى الشمس فلما رآها مالت - يعني قام يصلي - قال: ثم خرجت امرأة من ذلك الخباء الذي خرج منه ذلك الرجل، فقامت خلفه تصلي، ثم خرج غلام حين راهق الحلم من ذلك الخباء، فقام معه يصلي. قال: فقلت للعباس: من هذا يا عباس؟ قال: هذا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب ابن أخي، قال: فقلت: من هذه المرأة؟ قال: هذه امرأته خديجة ابنة خويلد. قال: قلت: من هذا الفتى؟ قال: هذا علي بن أبي طالب ابن عمه. قال: فقلت: فما هذا الذي يصنع؟ قال: " يصلي، وهو يزعم أنه نبي "، ولم يتبعه على أمره إلا امرأته، وابن عمه هذا الفتى، وهو يزعم " أنه سيفتح عليه كنوز كسرى، وقيصر " قال: فكان عفيف وهو ابن عم الأشعث بن قيس يقول: وأسلم بعد ذلك، فحسن إسلامه لو كان الله رزقني الإسلام يومئذ، فأكون ثالثا مع علي بن أبي طالب رضي الله عنه."

( ومن مسند بني هاشمحديث العباس بن عبد المطلب عن النبي صلى الله عليه وسلم، ٣ / ٣٠٥، ط: مؤسسة الرسالة)

تفسير الماوردي میں ہے:

" {أرأيت الذي ينهى عبدا إذا صلى} نزلت في أبي جهل , روى أبو هريرة أن أبا جهل قال: واللات والعزى لئن رأيت محمدا يصلي بين أظهركم لأطأن رقبته ولأعفرن وجهه في التراب , ثم أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي ليطأ رقبته , فما فجأه منه إلا وهو ينكص , أي يرجع على عقبيه , فقيل له: ما لك؟ فقال: إن بيني وبينه خندقا من نار وهواء وأجنحة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لو دنا مني لاختطفته الملائكة عضوا عضوا). وروى الحسن أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إن لكل أمة فرعون , وفرعون هذه الأمة أبو جهل). وكانت الصلاة التي قصد فيها أبو جهل رسول الله صلاة الظهر. وحكى جعفر بن محمد أن أول صلاة جماعة جمعت في الإسلام , يوشك أن تكون التي أنكرها أبو جهل , صلاها رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه علي رضي الله عنه فمر به أبو طالب ومعه ابنه جعفر فقال: صل جناح ابن عمك , وانصرف مسرورا يقول:

(إن عليا وجعفرا ثقتي ... عند ملم الزمان والكرب)

(والله لا أخذل النبي ولا ... يخذله من كان ذا حسب)

(لا تخذلا وانصرا ابن عمكما ... أخي لأمي من بنيهم وأبي)

فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك."

( العلق، ٦ / ٣٠٦ - ٣٠٧، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں