میں لاہور میں ملازمت کر رہا ہوں، اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوں، جب کہ میرا گھر اور میرا خاندان اسلام آباد میں ہے۔ میں ہر پیر کو لاہور آتا ہوں، اور ہفتہ اور اتوار کو واپس اسلام آباد چلا جاتا ہوں۔ میں یہ معمول پچھلے تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہوں، اور اس دوران میں نے کسی بھی شہر میں مسلسل 14 دن سے زیادہ قیام نہیں کیا۔ براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں کہ مجھے لاہور اور اسلام آباد میں مکمل نماز پڑھنی چاہیے یا قصر؟
صورتِ مسئولہ میں جب کہ سائل کی مستقل رہائش اسلام آباد میں ہے، تو اسلام آباد سائل کا وطنِ اصلی (مستقل جائے قیام) ہوا، لہذا اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے بہر صورت نماز مکمل پڑھنا لازم ہے۔
تاہم لاہور میں چوں کہ ہر ہفتہ سائل کا قیام پانچ دن سے زیادہ نہیں ہوتا، اس لیے لاہور شہر سائل کے لیے وطنِ اقامت (عارضی جائے قیام) نہیں بنتا، لہذا لاہور میں سکونت کے دوران انفرادی نماز پڑھتے ہوئے یا امامت کراتے ہوئے نماز کا قصر لازم ہے، البتہ کسی مقامی امام کی اقتداء کی صورت میں امام کے ساتھ پوری نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
"ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية . . . وإن نوى الإقامة أقل من خمسة عشر يوما قصر، هكذا في الهداية."
(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ١/ ١٣٩، ط: رشيدية)
وفيه أيضا:
"وإن اقتدى مسافر بمقيم أتم أربعا . . . وإذا دخل المسافر مصره أتم الصلاة وإن لم ينو الإقامة فيه سواء دخله بنية الاختيار أو دخله لقضاء الحاجة، كذا في الجوهرة النيرة. عبارة عامة المشايخ أن الأوطان ثلاثة: وطن أصلي وهو مولد الرجل أو البلد الذي تأهل به، ووطن سفر وقد سمي وطن إقامة وهو البلد الذي ينوي المسافر الإقامة فيه خمسة عشر يوما أو أكثر، ووطن سكنى وهو البلد الذي ينوي الإقامة فيه دون خمسة عشر يوما وعبارة المحققين من مشايخنا أن الوطن وطنان وطن أصلي ووطن إقامة ولم يعتبروا وطن السكنى وطنا وهو الصحيح، هكذا في الكفاية."
(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ١/ ١٤٢، ط: رشيدية)
فقط والله تعالى أعلم
فتوی نمبر : 144701100252
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن