بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اصلاحی جلسے کے لیے جمع کیے گئے چندے کی رقم اگر بچ جائے تو کیا اس کو مسجد کے کاموں میں خرچ کیا جاسکتا ہے؟


سوال

 فتوی نمبر: 144406101785 

ہمارے محلے میں ایک اصلاحی جلسہ منعقد ہوا تھا اور اس جلسہ کو مسجد کمیٹی نے امام صاحب کے ساتھ مل کر منعقد کیا تھا، اس اصلاحی جلسہ کے لیے لوگوں نے چندہ دیا (واضح رہے کہ جلسہ کے لیے مستقل چندہ کیا تھا مسجد فنڈ سے ایک روپیہ بھی جلسہ میں خرچ نہیں کیا ) اب پچاس ساٹھ ہزار روپیہ بچا ہوا ہے( واضح رہے کہ اب جو پیسہ بچا ہوا ہے اس کو کن کن لوگوں نے دیا تھا پہچاننا بہت مشکل ہے ) ، کیا ہم اس پیسہ کو مسجد کے کاموں میں لگاسکتے ہیں ؟ مثلاً مسجد کی چھت بنانے میں، امام کے لیے کمرہ بنانے میں، اسی طرح مسجد کی دیگر ضروریات میں، اور امام صاحب کی دیگر ضروری چیزوں کے خریدنے میں مثلاً چارپائی وغیرہ خریدنے میں خرچ کر سکتے ہیں؟

جواب:

واضح رہے کہ جن کاموں کے لیے چندہ کیا جائےتو وہ رقم ان ہی کاموں میں صرف کی جائے ،دوسرے کاموں میں چندہ دہندہ گان کی اجازت کے بغیرخرچ کرنا درست نہیں ۔ لہذا صورت مسئولہ میں جو چندہ اصلاحی جلسہ کے لیے کیا گیا اور اس میں تقریبا ً پچاس ،ساٹھ ہزار روپے بچے ہوئے ہیں تو اسے چندہ دینے والوں کی اجازت کے بغیر اس رقم کومسجد کے کاموں میں یا کسی اور جگہ خرچ کرنا شرعا جائز نہیں؛ اس لیے کہ مسجد کمیٹی کی حیثیت محض امین اور وکیل کی ہے ۔ البتہ اگر چندہ ہندہ گان اس رقم کو مذکورہ جگہوں پر خرچ کرنے کی اجازت دیں تو شرعاً ایسا کرنا جائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:269،سعید)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟ قال:لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإان لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن."

(کتاب الوقف،ج:8،ص:177،مکتبہ زکریا دیوبند)

مذکورہ سوال میں  مزید وضاحت یہ  مطلوب یہ ہے کہ جب جلسے کے لئے چندہ کیا تو کسی نے سو کسی نے ایک ہزار کسی نے پانچ ہزار کرکے دیے تھے ، اب جو رقم بچی  ہوئی ہے کس نےدی یہ پتا لگانا بہت مشکل ہے، ایسے میں چندہ دینے والے ہر ایک سے اجازت لینا اور بھی مشکل ہورہا ہے اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

1۔کیا ایسی کوئی تدبیر ہے جو اس رقم کو مسجد کے کاموں میں لگا یا جاسکے ؟ 

2۔محلے کے ان لوگوں کو جنہوں نے جلسے کے لئے چندہ دیا تھا جمع کرکے ان سے مشورہ لے لیا جائے ان میں سے اکثر لوگوں کی رائے اگر مسجد کے کاموں میں خرچ  کرنے کی ہو تو کیا اکثر لوگوں کی رائے پر مسجد کے کاموں میں خرچ کر سکتے ہیں؟

3۔کیا بچا ہوا پیسہ اگلے سال اصلاحی جلسہ منعقد کرکے اس میں خرچ کر سکتے ہیں؟

4۔ جب چندہ کیا تھا اس وقت جن لوگوں نے چندہ وصول کیا ان کی نیت یہ تھی کہ اگر کچھ رقم بچ جائے تو اس بچے ہوئے رقم کو مسجد کے ضروری کاموں میں خرچ کریں گے  لیکن جن لوگوں نے چندہ دیا تھا انہوں نے جلسے میں خرچ کرنے کے لئے دیا تھا ایسے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

1، 2۔صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ  چندہ کی رقم لوگوں نے اس لیے دی تھی کہ اس سے اصلاحی جلسہ منعقد کیا جائے ،تو اسے جلسے میں ہی استعمال کرنا ضروری تھا  ،البتہ اب رقم ضرورت سے زائد ہےتو جن لوگوں نے چندہ دیا تھاان کی اجازت سے مسجد میں لگاسکتے ہیں،البتہ چندہ دینے والے ہر ایک فرد سے اجازت لینا ناممکن ہوتو جس جگہ اور مقام میں چندہ کیاگیاتھا،وہاں کے لوگوں کو  حتی الامکان اطلاع دے کر اجازت لے کر پھر مسجد میں یہ رقم لگائی جائے یا جیسے ضرورت پر مانگا ایسے ہی اعلان کر کے ان کو واپس کریں،نیز اگر اکثر لوگوں کی رائے یہ ہو کہ بچی ہوئی رقم کو مسجد میں استعمال کردیا جائے تو اس صورت میں مسجد میں استعمال کرنا درست ہوگا ،البتہ اگر کوئی عدم رضامندی کا اظہار کرے تو اس کو  اس کی رقم لوٹانا انتظامیہ پر لازم ہوگا ۔

3۔جی استعما ل کرسکتے ہیں ،چوں کہ دی گئی رقم چوں کہ اصلاحی جلسے کے لیے تھی اس لیے سب سے بہتر صورت یہ  ہے کہ اس رقم کو اسی مد میں استعمال کی جائے ۔

4۔چندہ دینے والوں کی نیت کا اعتبار ہوتاہے نہ کہ لینے والوں کی ،اس لیے اگر لوگوں سے چندہ لیتے وقت اس بات کی صراحت نہیں کی تھی کہ بچ جانےوالی رقم کو مسجد میں خرچ کیا جائے گا تو اس صورت میں لوگوں سے اجازت لینی ضروری ہوگی ۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: ایک لاورث شخص مرگیا، جس کے کفن کے لیے چندہ کیاگیا ہے، بعد کفن دفن کچھ چندہ بچ گیا تو اس کو مسجد میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلياً:

جن لوگوں نے چندہ دیا ہے ان کی اجازت سے مسجد میں بھی خرچ کرسکتے ہیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔"

(کتاب الوقف، باب احکام المساجد،ج:15،ص:167، ط: ادارۃ الفاروق)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"و لايجوز ‌التصرف ‌في ‌ملك الغير بدون إذنه سواء كان هذا التصرف مضرا بصاحب الملك أو غير مضر ، ما لم يوجد ضرورة في التصرف بملك الغير."

(الكتاب العاشر، الباب الثالث، الفصل الأول، ج:3، ص:301،ط:دارالجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلايصرف أحدهما للآخر و هي واقعة الفتوى. اهـ."

( کتاب الوقف، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ، ج: 4/ صفحہ: 361/ ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضا:

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا."

(کتاب الوقف، 4/ 445/ ط: سعید)

امدادالفتاوی میں ہے :

"سوال (۶۹۵):چندہ کے احکام وقف کے ہونگے یا مہتمم تنخواہ مقررہ سے زائد بطور انعام وغیرہ کے دے سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب:یہ وقف نہیں ،معطیین کا مملوک ہے اگر اہل چندہ صراحۃ یا دلالۃ انعام دینے پر رضامند ہوں درست ہے ورنہ درست نہیں ۔"

(کتاب لوقف ،ج:2،ص:560،ط:دارالعلوم کراچی ) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں